1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن انتخابی نظام اور طریقہء کار

12 جون 2017

ایک دن اور دو ووٹ چار سال کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایک حکومت کی مدت اتنی ہی ہوتی ہے۔ اس سال چوبیس ستمبر کو نئی وفاقی پارلیمان کا انتخاب ہوگا۔ جانیے کہ جرمن عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/2eWzU
Deutschland | Wahl des Bundespräsidenten | Vorbereitungen
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen

جرمن انتخابی نظام کے حوالے سے جو فقرہ سب سے زیادہ کثرت سے بولا جاتا ہے، وہ یہ ہے، ’’اراکین پارلیمان کو عام، آزاد، یکساں اور  خفیہ طریقے سے منتخب کر لیا گیا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بالغ فرد (کم از کم عمر اٹھارہ برس) کو بلا تفریق، اس سے قطع نظر کہ وہ امیر ہے یا غریب، پڑھا لکھا ہے یا نہیں، جیسی بھی سیاسی رائے رکھتا ہو، ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔

ہر اہل شہری کو دو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوتی ہے۔ پہلا ووٹ کسی انتخابی امیدوار کو براہ راست دیا جاتا ہے اور دوسرا ووٹ الیکشن میں حصہ لینے والی کسی بھی سیاسی جماعت کو دیا جاتا ہے۔ اور یہ سب کچھ خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ لیکن جرمن انتخابی سسٹم امریکا، برطانیہ یا پھر سوئٹزرلینڈ کے انتخابی نظاموں سے مختلف ہے۔

جرمنی، ایک نمائندہ جمہوریت

اہم ترین فرق: جرمن سیاسی حکمرانی براہ راست نہیں بلکہ نمائندہ سیاسی حکمرانی ہے اور اس میں اراکین پارلیمان مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ عوام کے مرضی کے نمائندے ہوتے ہیں اور فیصلہ سازی میں انہی کا کردار ہوتا ہے۔

سوئٹزر لینڈ میں صورتحال مختلف ہے، وہاں قانون سازی یا کوئی بھی قانون بنانے کے لیے ریفرنڈم کرایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جرمنی میں سیاسی فیصلے عوام کے نمائندے یعنی اراکین پارلیمان کرتے ہیں۔

وفاقی جرمن پارلیمان (بُنڈس ٹاگ)

سن 2002ء کے بعد سے جرمن وفاقی پارلیمان کم از کم 598 اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں سے نصف نشستیں (299) انتخابی حلقوں میں واضح برتری حاصل کرنے والوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کا انتخاب براہ راست کیا گیا ہوتا ہے۔ دیگر دو سو ننانوے اراکین بھی عوام کی طرف سے ہی منتخب کیے جاتے ہیں لیکن ان کا انتخاب پارٹی ووٹوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

پہلا اور دوسرا ووٹ

پارلیمانی انتخابات میں ہر اہل شہری دو ووٹ دینے کا حقدار ہوتا ہے اور ان میں سے پہلے کی نسبت دوسرا ووٹ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ وفاقی جرمن پارلیمان کی ہیئت کا فیصلہ یہی دوسرا ووٹ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سیاسی جماعت کو پینتیس فیصد ووٹ ملتے ہیں تو مستقبل کی پارلیمان میں اس کے نمائندوں کی تعداد بھی پینتیس فیصد ہی ہو گی۔

جرمن پارلیمان میں معاملہ اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے، جب کسی سیاسی جماعت کے براہ راست اراکین زیادہ منتخب ہو جائیں لیکن اسے بحیثیت سیاسی جماعت ووٹ کم ملیں۔ اگر معاملہ ایسا ہو جائے تو اراکین پارلیمان کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا پڑتا ہے۔

کم از کم پانچ فیصد ووٹوں کی حد

جرمن انتخابات کی ایک خصوصیت کم از کم پانچ فیصد ووٹوں کی حد کی صورت میں ایک رکاوٹ بھی ہے۔ یعنی پارلیمان میں صرف وہی جماعت آ سکتی ہے، جو کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرے گی۔ اس طرح کے قوانین کئی دوسرے ملکوں میں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیلی پارلیمان میں پہنچنے کی خاطر کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے کم از کم 3.25 فیصد اور ترکی میں کم از کم دس فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں۔

ناقدین کے خیال میں اس طرح کی رکاوٹ سے لاکھوں ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں لیکن ابھی تک جرمنی میں یہ رکاوٹ برقرار ہے۔