1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: موبائل فون کے ذریعے مہاجرین کی جاسوسی کا قانون

شمشیر حیدر Chase, Jefferson
1 اپریل 2017

جرمن حکومت مہاجرین کے موبائل فون سے حاصل کیے گیے ڈیٹا کی مدد سے ان کی شناخت کرنے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے تاہم اس کے خلاف مزاحمت بھی دیکھی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ غیر آئینی ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2aVAm
Deutschland Handys von Flüchtlingen im Visier
تصویر: picture alliance/AP Images/A. Ghirda

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (BAMF) کی نئی سربراہ یُوٹا کورٹ کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے موبائل فون کا ریکارڈ حاصل کرنے سے ان کی شناخت کرنے میں آسانی پیدا ہو گی۔ ان کا ادارہ اس مقصد کے لیے قانونی مسودے پر تیزی سے کام کر رہا ہے جسے 27 اپریل کے روز جرمن پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا۔ قانون کی منظوری کی صورت میں جرمن ادارے تارکین وطن کی اصل شناخت جاننے کے لیے ان کے موبائل فون کا ریکارڈ حاصل کر سکیں گے۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

ایک مقامی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں یُوٹا کورٹ کا کہنا تھا، ’’موبائل فون ریکارڈ کی مدد سے ہم ایسے تارکین وطن کی اصل شناخت اور ان کی قومیت جان پائیں گے جن کے پاس پاسپورٹ نہیں ہوتے۔ ان معلومات کی بنا پر یہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے کہ کہ کیا تارک وطن واقعی جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا مستحق ہے۔‘‘

لیکن جرمن حکومت میں شامل سبھی جماعتیں بی اے ایم ایف کو ایسے اختیارات دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ جرمنی میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں اور مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی ایسی کسی بھی قانون سازی کی مخالفت کر رہی ہیں۔

رواں ہفتے کے آغاز میں جرمنی میں ڈیٹا کے تحفظ کی کمشنر آندریا فوشوف نے ایسے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ایسا کوئی قانون عدالتی جانچ پڑتال کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی اے ایم ایف کو یہ اختیارات دیے جانے کے بعد بھی ان اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

بی اے ایم ایف کو امید ہے کہ موبائل فون سے حاصل کیے گئے ڈیٹا اور تارکین وطن کے سوشل میڈیا پروفائلز کے ذریعے انہیں ایسی قابل اعتماد معلومات دستیاب ہوں گی جن کے ذریعے وہ پناہ کے متلاشی افراد کی اصل شناخت جان پائیں گے۔ یہ یہ بات اس مفروضے پر مبنی ہے کہ تارکین وطن نے اپنے فون میں ٹریکنگ نظام بند نہیں کیا ہو گا اور وہ جرمن حکام سے تعاون کریں گے۔

جرمنی میں ایک کمپیوٹر میگزین کے ایڈیٹر فابیان شیرشل نے ڈی ڈبلیو سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ پاس ورڈ اور تکنیکی معلومات کے بغیر مہاجرین کے فون میں موجود ڈیٹا تک رسائی آسان کام نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موبائل فون ڈیٹا کے ذریعے سو فیصد درست معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔

دوسری جانب مہاجرین کی مدد اور ان کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم Pro Asyl کے مطابق ایسا قانون جرمن آئین سے متصادم ہو گا۔ اس تنظیم کے قانونی شعبے کے ڈائریکٹر بیرنڈ میسووچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت سن 2004 میں ایک ایسا فیصلہ کر چکی ہے جس کے مطابق حکومت بڑے پیمانے پر جاسوسی نہیں کر سکتی۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

افغان ساتھیوں کی ملک بدری رکوانے کے لیے جرمن طلبہ سرگرم