1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ’اس سال ساڑھے تین لاکھ تارکین وطن ملک بدر کیے جائیں‘

شمشیر حیدر18 فروری 2016

جرمن صوبے باویریا کے وزیر خزانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس برس جرمنی سے ساڑھے تین لاکھ تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے اور جرمنی میں وفاقی سطح پر غیر ملکیوں کو جلاوطن کرنے کا کوئی باقاعدہ منصوبہ بنایا جائے۔

https://p.dw.com/p/1HxMY
Deutschland Abschiebung der Flüchtlinge nach Kosovo und Albanien vom Flughafen München
تصویر: Reuters/M. Rehle

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی وفاقی ریاست باویریا کے وزیر داخلہ مارکوس زوئیڈر کا کہنا ہے کہ جرمنی سے تارکین وطن کو جلاوطن کرنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتیں مل کر منصوبہ بندی کریں۔

زوئیڈر نے جمعرات 18 جنوری کے روز جرمن اخبار ’دی ویلٹ‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وفاق اور صوبے ایک ایسے معاہدے کو یقینی بنائیں، جس کے تحت ملک بھر سے ایک ہی طرز پر پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا جا سکے۔

جرمنی سے مایوس پناہ گزینوں کی رضاکارانہ وطن واپسی

میرکل کی کابینہ پناہ کے نئے اور سخت قوانین پر متفق

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسیوں پر شدید تنقید کرنے والی حلیف جماعت کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) سے تعلق رکھنے والے زوئیڈر کا کہنا تھا، ’’جرمن صوبوں میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کیے جانے کے قوانین ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہونے چاہییں۔ وفاق اور صوبے اس عمل میں ہم آہنگی پیدا کریں۔‘‘

سی ایس یو کے سیاست دان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم مہاجرین کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ جان بوجھ کر ایسی جرمن ریاستوں کا رخ کرنا شروع کر دیں، جہاں سے جلاوطن کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔‘‘

Horst Seehofer und Markus Söder
جرمنی کی وفاقی ریاست باویریا کے وزیر اعلیٰ ہورسٹ زے ہوفر اور وزیر داخلہ مارکوس زوئیڈر کا تعلق میرکل کی حلیف جماعت سی ایس یو سے ہےتصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

جرمنی میں تارکین وطن کی سیاسی پناہ دی درخواستوں پر مثبت فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے زوئیڈر کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا رہی ہیں اس حساب سے رواں سال کے اختتام تک تین لاکھ 50 ہزار پناہ گزین جرمنی سے ملک بدر ہو سکتے ہیں۔ ان کی رائے میں ایسے غیرملکیوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ اور بر وقت جلا وطن کر دینا چاہیے تاکہ اداروں پر بوجھ کم ہو سکے۔

برسلز میں جاری یورپی یونین کے سربراہ اجلاس کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں آنے والے پناہ گزینوں کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کیے بغیر یورپی سطح پر اس بحران کا حل تلاش کرنا ناممکن ہو گا۔ زوئیڈر کا کہنا تھا، ’’کوئی بھی ملک بلینک چیک پر دستخط نہیں کرے گا۔‘‘

سی ایس یو کے سیاست دان کی رائے میں جرمنی اپنے یورپی اتحادیوں کی حمایت صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے، جب ملکی سطح پر تارکین وطن کی آمد کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کر لیے جائیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جرمنی کی تمام سرحدوں پر نگرانی کیا جائے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے تارکین وطن و مہاجرین (بی اے ایم ایف) کا کہنا ہے کہ شمالی افریقی ممالک سے آنے والے تمام تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کو مارچ کے وسط تک نمٹا دیا جائے گا۔ الجزائر، مراکش اور تیونس جیسے شمالی افریقی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں کیونکہ برلن حکومت کی جانب سے انہیں محفوظ ممالک کے زمرے میں خیال کیا جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید