1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان کے بحران کے بعد جوہری بجلی کا مستقبل!

17 مارچ 2011

جاپان میں پیدا شدہ جوہری بحران کے بعد اب قوی امکان پیدا ہوگیا ہے کئی دہائیوں سے پھلتی پھولتی جوہری بجلی کی صنعت اب اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/10ars

جاپان کے بحران کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ دنیا بھر میں ایسے ضابطے ترتیب دینے کی کوششیں زور پکڑ گئی ہیں کہ جوہری بجلی گھر قائم کرنے کی لاگت اور اس کے لیے سرمائے کی فراہمی کو کٹھِن کیا جائے۔ امریکہ میں عوامی نمائندے واشنگٹن حکومت پر زور بڑھا رہے ہیں کہ وہ اس ضمن میں اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے۔

ملکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایک نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں اشارہ دیا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے اس سلسلے میں سوچ و بچار شروع کردی ہے۔ کلنٹن کے بقول، ’’ جاپان میں جو ہورہا ہے اس نے جوہری بجلی کی لاگت اور اس سے جُڑے خطرات سے متعلق نئے سوالات کو جنم دیا ہے، ہمیں ان کا جواب دینا ہوگا۔‘‘

Atomkraftwerk in China
ایک چینی انجینئر جوہری بجلی گھر کے اندر کام میں مصروفتصویر: AP

جوہری بجلی کی پیداوار کے حوالے سے چین کو سب سے بڑی منڈی تصور کیا جارہا ہے۔ بیجنگ حکومت نے ملک بھر میں جوہری بجلی گھروں میں سلامتی سے متعلق جامع جانچ پڑتال کے احکامات جاری کیے ہیں۔ چین کی جوہری پالیسی پر نظر رکھنے والے، بین الاقوامی سلامتی سے متعلق Carnegie Endowment سے وابستہ مارک ہبز کے بقول، ’’ جاپان کے حادثے کے بعد اب ریگولیٹرز کو بہت زیادہ سیاسی طاقت حاصل ہوجائے گی۔‘‘ ادھر جرمنی نے اس ضمن میں پہل کرتے ہوئے اپنے یہاں سات پرانے جوہری بجلی گھر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دنیا بھر میں اس وقت 441 جوہری بجلی گھر کام کر رہے ہیں جبکہ 477 مزید کی تعمیر تجویز کی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ورلڈ نیوکلیئر ایسوسی ایشن سے حاصل شدہ معلومات پر مبنی ہیں۔

جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے سلسلے میں Shaw گروپ کا نام اہم ہے جو ری ایکٹر تعمیر کرتے ہیں۔ یورینیم فراہم کرنے اور جوہری بجلی گھر کا ڈیزائن تخلیق کرنے والی کمپنیاں بھی اہم خیال کی جاتی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک، Bectel Corp, Babcock & Wilcox اور Areva SA بڑے نام ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ تمام بڑے نام اب عوامی تنقید اور ریگولیٹرز کی کڑی نظروں میں رہیں گے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ کاروباری منافع کے لیے یہ کمپنیاں اب گیس و کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر زیادہ دھیان دیں گی۔

Flash Galerie 25 Jahre Tschernobyl 14
چرنوبل حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں منعقدہ ایک تقریبتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

اس تمام تر صورتحال کے باوجود بعض طاقتور ممالک نے واضح کردیا ہے کہ ان کے یہاں کام کرنے والے جوہری بجلی گھر محفوظ ہیں اور وہ ان کے کام میں مداخلت کرکے اپنی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا نہیں چاہتے۔ روسی صدر دمتری میدویدیف کے بقول، ’’ ہر کوئی ایک سادہ سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا جوہری بجلی محفوظ ہے، جواب واضح ہے کہ ہاں یہ محفوظ ہوسکتی ہے اور محفوظ ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پلانٹ کے مقام، ڈیزائن اور اسے چلانے والے سے متعلق درست فیصلے کیے جائیں۔‘‘

واضح رہے کہ دنیا کا پہلا جوہری بجلی گھر بھی 1954ء میں روس ہی میں قائم کیا گیا تھا جبکہ بدترین جوہری حادثہ بھی 1986ء میں سابق سوویت یونین کے زیر انتظام چرنوبل کے جوہری پلانٹ میں ہوا تھا۔

ترکی نے واضح کیا ہے کہ جاپان اور روس کے تعاون سے ملک کے اولین جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ فرانسیسی صدر نکولاسارکوزی بھی واضح کرچکے ہیں کہ جاپان کی صورتحال سے ان کے یہاں بھی توانائی کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ فرانس میں 58 جوہری پاور پلانٹس ہیں۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں