1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جان خطرے ميں ڈال کر يورپ جانا نامنظور‘

عاصم سليم26 ستمبر 2015

عراقی مسيحی مہاجر ہانا يوسف اگرچہ اِن دنوں اردن ميں فراہم کردہ عارضی رہائش گاہ سے بالکل مطمئن نہيں تاہم وہ اپنی بيوی اور چار بچوں کے ہمراہ يورپ جانے کے ليے خطرناک سمندری سفر کے ليے بھی تيار نہيں ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gdyh
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Gurgah

ہانا يوسف کو نہ تو پیراکی آتی ہے اور نہ اس کے پاس خطرناک سمندری سفر طے کرتے ہوئے يورپ جانے کے ليے درکار مالی وسائل ہیں۔ اسے خوف ہے کہ وہ، اس کی بيوی اور بچے بالخصوص دو سالہ بيٹی شايد يہ سفر مکمل نہ کر پائيں۔ يہی وجہ ہے کہ وہ اپنی برادری کے ديگر کئی افراد کی طرح يورپ جانے اور وہاں نئی زندگی شروع کرنے کا خواب تو ضرور ديکھتا ہے ليکن فی الحال اُسے حقيقت بنانے ميں دلچسپی نہيں رکھتا۔

پينتاليس سالہ يوسف شمالی عراق کے شہر موصل کا رہنا والا تھا۔ انتہاپسند گروپ ’اسلامک اسٹيٹ‘ کی گزشتہ برس موصل پر چڑھائی کے سبب ہزاروں ديگر افراد کے ہمراہ وہ بھی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ وہ اِن دنوں اردن ميں مہاجرين کے ايک کيمپ ميں وقت کاٹ رہا ہے۔

اردن ميں مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہ ميں يوسف کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ قريب ڈيڑھ برس سے اِس بات کا منتظر ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين UNHCR کی طرف سے اُن سب کو باقاعدہ ’مہاجرين‘ کا درجہ ديا جائے اور مستقل بنيادوں پر کسی ملک منتقل کيا جائے، جہاں وہ نئی زندگی شروع کر سکے۔ يوسف کے بقول ، ’’ہميں تنہا چھوڑ ديا گيا ہے، ہميں بھلا ديا گيا ہے۔ يہ کافی اعصاب شکن ہے۔‘‘

اردن کے مہاجر کیمپ میں يوسف کو ايک اور الجھن کا سامنا بھی ہے۔ قوانين کے مطابق اردن ميں مہاجرين کی حيثيت سے عارضی قيام کرنے والوں کو ملازمت کرنے کی اجازت نہيں ہے جبکہ تاحال یوسف کو کسی قسم کی مالی امداد بھی نہیں دی جا رہی۔ یوسف نے کہا، ’’ہميں نہيں معلوم يہاں ہمارا کيا ہو گا۔ ہمارے پاس ملازمت اور آمدنی نہيں۔‘‘ يوسف کے بقول اردن پہنچنے کے بعد سے اب تک اُنہيں UNHCR کی طرف سے صرف 70 ڈالر کے برابر رقم ملی ہے۔

Bildergalerie syrische Flüchtlinge Wintereinbruch Januar 2015
اردن میں موجودعراقی مہاجرين ميں سے مسيحيوں کی تعداد لگ بھگ گيارہ ہزار ہےتصویر: Reuters/H. Khatib

يوسف کی طرح ناصر، اس کی بيوی ميلاد اور اُن کے تين بچے عراقی شہر قراقوش سے آٹھ ماہ قبل اردن آئے تھے۔ ناصر اور اُن کے اہل خانہ نے آسٹريليا ميں سياسی پناہ حاصل کرنے کے ليے درخواست جمع کرائی تھی، جسے مسترد کر ديا گيا۔ تاہم ناصر کا کہنا ہےکہ وہ کسی دوسرے ملک منتقلی کے ليے ہر گز کوئی غير قانونی طريقہ اختيار نہيں کرے گا۔

اِسی طرح اردن میں موجود ايک اور عراقی مسیحی فادی عزير اپنی اہليہ اور چار بيٹيوں کے ہمراہ قريب پانچ برس سے کسی دوسرے ملک منتقلی کا منتظر ہے ليکن وہ بھی غير قانونی طريقے سے کسی دوسرے ملک نہیں جانا چاہتا۔ اس کے بقول اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين کا طريقہ کار خواہ طويل اور تھکا دينے والا ہو، ليکن وہ اِسی کو اپنائے رکھے گا۔

ايک اور عراقی مسیحی صبا کی اولين ترجيح اُس کے اہل خانہ کی حفاظت ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ہم عراق ميں حملوں، اغواء کی وارداتوں، قتل اور دھمکيوں کے بيچ رہ کر آئے ہيں، ہم تھک چکے ہيں اور دوبارہ اپنی جانوں کو خطرے ميں ڈالنا نہيں چاہتے۔‘‘

UNHCR کے مقامی نمائندے اينڈرو ہارپر کے مطابق اردن ميں اُن کے ادارے نے پچاس ہزار عراقی اور چھ لاکھ شامی مہاجرين کو رجسٹر کیا ہے۔ ہارپر کا کہنا ہے اگر اِن مہاجرين کو اردن ميں کوئی اچھا مستقبل نہیں ملتا تو اُن کے پاس واپس اپنے آبائی ممالک يا يورپ جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہيں بچتا۔

بین الاقوامی امدادی تنظيم کاری تاس سے وابستہ اردنی اہلکار وائل سليمان کے بقول اردن میں عراقی مہاجرين ميں سے مسيحيوں کی تعداد لگ بھگ گيارہ ہزار ہے۔ سليمان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہيں کہ يہ لوگ خطے ميں ہی رہيں ليکن اِس کے ليے اُنہيں تعاون کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے بتايا کہ آج کل وہ مہاجرين کے ليے ملازت کی اجازت حاصل کرنے کی کوششوں ميں ہيں۔