1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین مذہب کا مقدمہ جھوٹا نکلا، نو برس بعد رہائی

عاطف توقیر
30 دسمبر 2017

پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ نو برس سے توہین مذہب کے مقدمے میں قید ایک شخص کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں فیصلہ جمعے کو سپریم کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نے دیا۔

https://p.dw.com/p/2q8fG
Pakistan Anschlag in Gujranwala
تصویر: picture-alliance/dpa

عدالتی ذرائع کے مطابق محمد منشا نامی اس شخص کو ذیلی عدالتوں کی جانب سے جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی تھی۔ 58 سالہ منشا کو سن 2008ء میں بہالپور کی مسجد کے ایک امام کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

توہین اسلام کا الزام، بنگلہ دیشی کارکن ایئر پورٹ سے گرفتار

پاکستانی بلاگرز توہین مذہب کے الزام سے بری ہوگئے

دھرنے سے زندگی متاثر اور کرکٹ بھی

تاہم سپریم کورٹ نے جمعے کے روز منشا کے خلاف موجود شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے، اسے رہا کرنے کا حکم دیا۔

سن 2009ء میں پاکستانی صوبہ پنجاب کی ایک عدالت نے 2009ء میں اسے جرم ثابت ہونے پر عمر قید سنائی تھی، جب کہ سن 2014ء میں اس کی سزا کی توثیق ہائی کورٹ نے بھی کر دی تھی اور اسی سال یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا تھا۔

منشا کے وکیل دفاع، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ ان کے موکل کو گرفتار اس شخص کے الزام پر کیا گیا تھا، جو سننے اور بولنے کی حسیات میں خرابی کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے کسی شخص کی جانب سے بہ طور گواہ پیش ہونے کی قانونی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے اور ایسے شخص کی گواہی قانونِ شہادت کے تحت تسلیم نہیں کی جا سکتی۔

منشا کے وکیل نے بتایا کہ وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ خود ان کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں توہین مذہب اور توہین رسالت انتہائی حساس معاملات ہیں اور پاکستانی قانون میں اسے جرم قرار دیتے ہوئے، اس پر سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔

منشا کے وکیل نے بتایا کہ اس کے موکل کو یہ الزامات عائد کیے جانے کے بعد گاؤں کی ایک کونسل کے سامنے پیش کیا گیا تھا، جہاں اسے بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

برلن میں سعودی سفارت خانے کے سامنے بدوی کے حق میں مظاہرہ

پولیس نے منشا کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا، جب کہ اس مقدمے میں اہم ترین گواہ اختر محمد بنا، جو سننے اور بولنے میں مشکلات کا حامل شخص تھا۔

وکیل استغاثہ عبدالحمید نے بھی بتایا ہے کہ اس مقدمے میں منشا کے خلاف کوئی مناسب شواہد موجود نہیں تھے، جب کہ پولیس کی تفتیش بھی بے پناہ خامیوں کا شکار تھی، یہی وجہ ہے کہ عدالت نے محمد منشا کو بری کر دیا۔ یہ بات اہم ہے کہ منشا ایک انتہائی غریب شخص ہے اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے وکیل بھی کرتا۔ اس کے دفاع کے لیے وکیل بھی سپریم کورٹ نے مقرر کیا تھا۔