1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک طالبان پاکستان کے مقابلے میں تحریک طالبان اسلامی پاکستان

27 جون 2011

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کےکرُم ایجنسی کے سربراہ فضل سعید حقانی نے دہشت گردانہ کارروائیوں کے حوالے سے اختلافات پر تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے تحریک طالبان اسلامی پاکستان کے نام سے علیحدہ گروپ بنا لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11kEn
تصویر: AP

فضل سعید حقانی کرم ایجنسی میں حکیم اللہ محسود کے زیر قیادت کالعدم تحریک طالبان کے امیر تھے تاہم ایک عرصے سے ان کے تحریک طالبان کے ساتھ اختلافات چلے آرہے تھے۔ ان کا کہنا ہے: ’’بنیادی طور پر میں مساجد اور عوامی مقامات پر خود کش حملوں کے مخالف ہوں اور ایک عرصے سے طالبان قیادت سے یہ حملے بند کرانے پر اصرار کرتا رہا ہوں، لیکن وہ ان کی بات ماننے کو تیار نہیں تھے جس پر میں نے اپنا راستہ الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

فضل سعید حقانی کا مزید کہنا ہے کہ وہ خود کش حملوں کو حرام سمجھتے ہیں، ’یہ اسلام میں حرام اور کھلی دہشت گردی ہے‘۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد تحریک طالبان اسلامی پاکستان کے نام سے نئی تحریک بنائی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی اس پلیٹ فارم سے اسلام کی خدمت کریں گے۔

خود کش حملوں کو حرام سمجھتے ہیں: تحریک طالبان اسلامی پاکستان کے سربراہ فضل سعید حقانی
خود کش حملوں کو حرام سمجھتے ہیں: تحریک طالبان اسلامی پاکستان کے سربراہ فضل سعید حقانیتصویر: AP

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جہاں القاعدہ اور غیر ملکی طالبان کی موجودگی کی اطلاعات ہیں وہاں پنجابی طالبان، حقانی نیٹ ورک اور کئی دیگر گروپ بھی سرگرم عمل ہیں۔ بعض حلقے ان گروپوں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے حق میں ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ امیر حیدر خان کا بھی کہنا ہے کہ جو لوگ اسلحہ رکھ کر حکومتی عملداری تسلیم کرتے ہیں ان کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے ہیں لیکن دوسری جانب سینئر صوبائی وزیر بشیر احمدبلور کا کہنا ہے: ’’یہ ہمارے ملک اور قوم کے دشمن ہیں یہ کسی اور کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ خود کو مسلمان، پختون اور پاکستانی کہتے ہیں لیکن یہ ہماری فوج، پولیس، انٹیلیجنس اداروں اورقومی اداروں پر حملے کرکے اسے مفلوج بنانے اور غیروں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کام کررہے ہیں۔ ہم ان کے سامنے جھکنے والے نہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کی قربانی دی ہے اور دیں گے لیکن ان کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔‘‘

فضل سعید حقانی حکیم اللہ محسود کی سربراہی میں کالعدم تحریک طالبان میں رہتے ہوئے اورکزئی ایجنسی میں کئی تربیتی مراکز چلا رہے تھے
فضل سعید حقانی حکیم اللہ محسود کی سربراہی میں کالعدم تحریک طالبان میں رہتے ہوئے اورکزئی ایجنسی میں کئی تربیتی مراکز چلا رہے تھے تھے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

حکیم اللہ محسود کی سربراہی میں کالعدم تحریک طالبان میں رہتے ہوئے فضل سعید اورکزئی ایجنسی میں کئی تربیتی مراکز چلا رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق تاوان کے لیے اغواءکیے جانےوالوں کو اکثر ان کے مراکز میں رکھا جاتا تھا اور تاوان نہ ملنے کی صورت میں انہیں قتل کر دیا جاتا تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہفتے کے روز اورکزئی ایجنسی کے علاقے فیصل درہ میں بھی طالبان کے دو گروپوں کے مابین تصادم کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک جبکہ سات زخمی ہوئے تھے۔ دونوں گروپوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے، تاہم ان کے مابین ایک عرصے سے اختلافات چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح خیبر ایجنسی میں موجود عسکریت پسندوں کے دو گروپوں میں بھی ایک عرصے سے اختلافات چلے آرہے ہیں اور آئے روز تصادم کی وجہ سے اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان گروپوں کو لگام نہ دے سکی تو مستقبل میں افغانستان کی طرح یہ وار لارڈز حکومتی علمداری کیلئے مستقل خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں اور ان کے ذریعے پاکستان دشمن قوتیں اپنے ایجنڈےکو بھی آگے بڑھاسکتی ہیں۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں