1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبت پر چینی کریک ڈاؤن کا ایک سال

14 مارچ 2009

گزشتہ سال مارچ کے مہینے میں تبت میں بدھ بھکشووں کے پر امن مظاہروں کو چینی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران کم از کم دو سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اُن ہنگاموں کی برسی پر تبتی شہر لہاسا میں سکیورٹی سخت انتہائی سخت ہے۔

https://p.dw.com/p/HBnh
تبتیوں کے اہم روحانی مقام پوٹالہ پیلس کے قریب چینی سکیورٹی فورسز کے افراد، گزشتہ سال کی ایک تصویرتصویر: AP

تبت کے مرکزی شہر لہاسا میں چین کی سکیورٹی فورسز نے جنگی لباس میں گشت جاری رکھا۔سکیورٹی فورسز کے اضافی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ سادہ کپڑوں میں بھی پولیس چوراہوں اور گلیوں میں موجود ہے تا کہ وہ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔

China Tibet Demonstration in Lhasa Polizei
گزشتہ سال، مارچ کے مہینے میں، لہاسا شہر کے علاقےجوکھانگ میں مظاہرینتصویر: AP

ہفتے کو تبت کے مرکزی شہر میں خاموشی دیکھنے میں آئی۔ جب کہ دوسری طرف چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں گزشتہ سال تبت میں اٹھارہ چینی باشندوں کی ہلاکت کو اہمیت دی گئی ہے۔ چینی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران دو سو کے قریب مقامی تبتیوں کی ہلاکتوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔

China Tibet Demonstration in Lhasa Polizei
چودہ مارچ سن دو ہزار آٹھ، جو کھانگ میں ہونے والے ہنگامے کی تصویر، سکیورٹی فورسز بھی نمایاں ہیں۔تصویر: AP

اِس موقع پر تبت حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر جو تصاویر جاری کی گئی ہیں اُن میں سے ایک میں دکھایا گیا کہ تیس تبتی زائرین جوکھانگ میں دلائی لامہ کی سا بقہ رہائش گاہ Potala Palace کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں۔ ییہ مقام تبتی بدھ مت کے پیروکاروں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تبت کی حکومت کا تصاویر جاری کرنے سے مراد وہاں ہر طرح کے حالات کو نارمل ظاہر کرنا مراد لیا گیا ہے۔

Tibet Demonstranten protestieren vor der chinesischen Botschaft in Berlin
پندرہ مارچ سن دو ہزار آٹھ: برلن میں تبت میں چینی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے خلاف جلوستصویر: AP

ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے غیر ملکی اخبار South China Morning Post کے مطابق سکیورٹی فورسز تبتی آبادی والے تمام علاقوں بشمول لہاسا شہر کے الرٹ ہیں۔ سکیورٹی فورسز مسلسل گشت میں مصروف ہیں۔ تبتی آبادی والے علاقوں میں اندرونِ خانہ تناؤ کی کیفیت موجود ہے۔ گھر گھر جا کر غیر ملکیوں کی نگرانی کے علاوہ عارضی رہائش پذیر افراد کی تلاش عمل جاری ہے۔ صحافیوں کو بھی اِن علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ مقامی شناختی کارڈ کے بغیر افراد کو پوچھ گچھ کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ دوکانوں اور ریسٹورانٹوں کو بھی جلد بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

گزشتہ پیر کو چین کے خلاف مقامی آبادی کی تحریک کے پچاس سال مکمل ہونے پر ایک نواحی خانقاہ Sera کے کچھ بھکشووں نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تھی مگر بعد میں اُس خانقاہ کو سو سے زائد سکیورٹی اہلکاوں نے اپنے گھیرے میں لے کر احتجاجی عمل کو روک دیا۔ ریڈیو فری ایشیاء کے مطابق تبت کے ہمسائے میں سچوان صوبے کے شہر Lithang میں دلائی لامہ کے حق نعرے لگانے والے اکلوتے احتجاجی کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

لہاسا کی مشہور خانقاہ Drepung سے پانچ سو بھکشووں کا جلوس دس مارچ سن دو ہزار آٹھ کو نکلا تھا جس میں چین کے تبت پر قبضے کے انچاس سالوں کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔ بعد میں اِس جلوس میں Sera اور Gamden خانقاہوں کے بھکشو بھی شامل ہو گئے۔ بارہ مارچ کو Sera خانقاہ کے چھ سو بھکشووں کے جلوس کو چینی سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس پھینک کر منتشر کردیا تھا۔ چودہ مارچ کو ہنگامے پھوٹ پڑے جن میں ہلاکتیں رپورٹ کی گئیں اور چین نے اِس کا الزام دلائی لامہ پر دھرا۔ کُل ایک سو تیس مقامات پر حکومت مخالف ہنگاموں میں سرکاری کارروائی میں ہلاک شدگان کی تعداد جلا وطن تبتیوں کے مطابق دو سو کے قریب ہے۔ یہ ہنگامے پچیس مارچ تک جاری رہے۔ اِس حکومتی جبر کے خلاف اور تبتیوں کی حمایت میں لندن، برلن، پیرس، نیو یارک سٹی اور سڈنی کے علاوہ کئی مقامات پر جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔