1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاریخی سبی میلہ اپنی رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر

عبدالغنی کاکڑ ، کوئٹہ3 مارچ 2016

بلوچستان کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا عکاس تاریخی سبی میلہ اپنی رعنائیوں کے ساتھ جمعرات تین مارچ کو اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اختتامی تقریب میں صوبائی وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری اور اعلیٰ سول اور فوجی حکام بھی شریک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/1I6G0
Pakistan Quetta Sardar Akhter Jan Mengal
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل ایک سٹال کا معائنہ کرتے ہوئےتصویر: DW/A.G. Kakar

آٹھ روز تک جاری رہنے والے اس میلے میں جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں کی ثقافت کے رنگ دیکھنے کو ملے، وہیں پر اس میلے میں اعلیٰ نسل کے جانوروں کی نمائش بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ میلے کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری نے کہا کہ سبی میلہ بلوچستان کی ثقافت کا اہم جزو ہے اور اسے فروغ دینے کے لیے حکومت نے جامع اقدامات کیے۔

صوبائی وزیر اعلیٰ نے کہا، ’’ثقافت ہماری پہچان ہے۔ ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہاں بسنے والی تمام قومیں اپنی بہادری، مہمان نوازی، چادر اور چار دیواری کے احترام اور خواتین کواعلیٰ مقام دینے جیسی مثبت روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ مقامی زبانوں کی ترویج و ترقی کے لیے موجودہ حکومت ترجیحی اقدامات کر رہی ہے۔‘‘

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سبی میلے کے انعقاد سے صوبائی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ آٹھ روزہ میلہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ نواب ثنااللہ زہری نے مزید کہا، ’’مجھے بےحد خوشی ہے کہ آج ہم اس میلے کے ذریعے اپنی ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں۔ جو قومیں اپنی ثقافت، زبان اور مثبت روایات کو اہمیت نہیں دیتیں، ہمیشہ مستقبل کے مسائل سے دوچار رہتی ہیں۔ جن قوموں نے اپنی زبان، تہذیب، ثقافت اور مثبت روایات کو اولیت نہیں دی، آج ان کے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں۔‘‘

بلوچستان کے ایک معروف مؤرخ حقداد بلوچ کے مطابق سبی میلہ عظیم روایات کا امین ہے اور اس میلے کےانعقاد سے بلوچستان کے عوام اپنی پہچان اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’سبی میلہ ہماری تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ بنیادی طور پر اس میلے کا آغاز معروف بلوچ حکمران میر چاکر خان رند کے دور میں 1487ء میں ہوا تھا۔ میلے میں شرکت کے لیے ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ ماضی میں یہاں اہم ترین قبائلی جرگے بھی منعقد ہوتے تھے، جن میں قبائل کے دیرینہ تنازعات کے حل نکالے جاتے تھے۔‘‘

Pakistan Quetta Balochi Kulturtag
بلوچ ثقافتی میلے کے موقع پر کوئٹہ میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران روایتی بلوچ لباس پہنے ہوئے افرادتصویر: DW/A.G. Kakar

حقداد بلوچ کے مطابق سبی میلے کے انعقاد اور اس سے جڑی ثقافتی سرگرمیوں سے امن کو فروغ ملتا ہے۔ انہو ں نے کہا، ’’اس میلے میں بلوچ ثقافت کا حقیقی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی نئی نسل کو اس قوم کے تاریخی پس منظر سے روشناس کرائیں۔ اس میلے کا انعقاد نفرتوں کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘

اس میلے کے اختتامی روز اسکولوں کی طالبات نے قومی نغمے اور بچوں نے فلاور شوپیش کیے۔ اس دوران جانوروں کی نمائشی پریڈ، گھوڑا ناچ، علاقائی رقص، نیزہ بازی ، گھڑدوڑ، رسہ کشی اور ملاکڑہ بھی پیش کیاگیا، جسے شائقین نے بےحد پسند کیا۔

میلے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی اور اس دوران بلوچستان کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سٹال بھی لگائے گئے۔ بلوچ پگڑیاں پہنے ہوئے فنکاروں کی روایتی لوک موسیقی کی دھن پر ہونے والے رقص کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔

کاشتکاری اور مال مویشیوں کی خرید و فروخت سے منسلک لوگ بھی سبی میلے کا خاص طور پر انتظار کرتے ہیں کیونکہ یہ میلہ ان کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید