1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کی مؤثر، تیز تر ملک بدری ضروری، جرمن وزیر داخلہ

شمشیر حیدر27 فروری 2016

جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ شمالی افریقی ممالک سے آئے تارکین وطن کی ملک بدری کے طریقہ کار کو مؤثر اور تیز کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ ڈے میزیئر کے مطابق ان ممالک پر تعاون بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1I3WV
Angela Merkel Thomas de Maiziere PK Asyl Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/Annegret Hilse

جرمن وزیر داخلہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ الجزائر، مراکش اور تیونس جیسے شمالی افریقی ممالک کے باشندوں کی جرمنی سے بلاتاخیر ملک بدری کو یقینی بنانے کے لیے ان ریاستوں کے ساتھ قریبی تعاون ضروری ہے۔

ہمیں وطن واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

ڈے میزیئر کا کہنا تھا کہ ان ممالک کے شہریوں کی ان کے وطنوں کو واپسی کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کام جلد از جلد انجام دیا جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی شناخت کے لیے جدید بائیومیٹرک ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے اس عمل میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا، ’’ہم اس ضمن میں شمالی افریقی ممالک کو معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘ ڈے میزیئر کل اتوار کے روز مراکش، تیونس اور الجزائر کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ ان ممالک سے ان کے شہریوں کی جرمنی سے واپسی کے بارے میں مذاکرات کریں گے۔

برلن حکومت ان ممالک کو ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس فہرست میں شامل ہونے کے بعد شمالی افریقی ممالک سے جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا آسان ہو جائے گا۔

ڈے میزیئر کے مطابق، ’’اس دورے کا مقصد پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے تعاون میں بہتری لانا ہے۔ عام طور پر تارکین وطن کے پاس شناختی دستاویزات موجود نہیں ہوتیں یا وہ غلط معلومات فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ان کے آبائی ملکوں کو واپسی میں دشواری پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے جرمنی کی جانب سے شمالی افریقی ممالک کو محفوظ قرار دینے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان ممالک میں دیگر امور کے علاوہ آزادی اظہار کی کمی اور ہم جنس پرست افراد کے حقوق کی کمی جیسے سنگین مسائل پائے جاتے ہیں۔

جرمن وزیر داخلہ نے اس بارے میں اے ایف پی کو دیے گئے اپنے تحریری انٹرویو میں کہا، ’’محفوظ ممالک قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ ہماری رائے میں ان ممالک میں عمومی سیاسی صورت حال اور قانون کی بالادستی سے متعلق حالات مناسب ہیں اور وہاں سیاسی انتقام نہیں لیا جاتا اور نہ ہی غیر انسانی سزائیں دی جاتی ہیں۔ مراکش، الجزائر اور تیونس ان معیارات پر پورا اترتے ہیں۔‘‘

جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ محفوظ ملک کا درجہ ملنے کے بعد بھی ان ممالک سے آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستیں رد ہونا ضروری نہیں اور درخواستوں کے فیصلے انفرادی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں، اس لیے اگر کوئی ثابت کر سکے کہ اسے ان ممالک میں تحفظ نہیں مل سکتا تو اسے پناہ دی جا سکتی ہے۔

نیا قانونی پیکیج، مہاجرین کو اپنے اہل خانہ بلانا آسان نہ ہو گا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید