1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بہتر مستقبل کے ليے يورپ آنا درست فيصلہ تھا يا غلط؟

عاصم سلیم مانسی گوپال کرشنن
19 مئی 2017

روشن مستقبل کے ليے يورپ تک کے سفر ميں ايک پل کے ليے بھی تنہائی اور بے يقينی جيسے احساسات نے ياسر کا دامن نہيں چھوڑا۔ آج ياسر جرمنی ميں ہے ليکن وہ اس کشمکش ميں مبتلا ہے کہ آيا اتنا کچھ داؤ پر لگانا درست فيصلہ تھا؟

https://p.dw.com/p/2dFSb
Yasir, Flüchtling aus Pakistan
تصویر: DW/M. Gopalkrishnan

ياسر کا تعلق پاکستانی صوبہ خيبر پختونخوا کے شہر پشاور سے ہے۔ وہ اپنی آنکھوں ميں ايک بہتر زندگی کے خواب ليے قريب اٹھارہ ماہ قبل جرمنی آيا تھا۔ پاکستان سے روانگی کے وقت ياسر کے والد نے بار بار اس سے کہا کہ وہ اپنے فيصلے پر نظر ثانی کرے ليکن ياسر کے ارادے بھی پختہ تھے۔ ياسر نے پاکستان سے ترکی تک کا سفر ہوائی جہاز پر کيا۔ ترکی سے وہ پيدل چل کر بلغاريہ گيا اور پھر سربيا کے راستے جرمنی پہنچا۔ اس پورے سفر ميں تقريباً دس ہزار ڈالر کے برابر اخراجات آئے، جو ياسر کے اہل خانہ نے اسے فراہم کيے۔ ياسر نے جرمنی ميں سياسی پناہ کی درخواست دائر تو کی ليکن جب اسے انٹرويو کی کال آئی، تو وہ انٹرويو دينے نہيں گيا۔ تين ماہ قبل اس نے اپنی درخوراست واپس لينے کے ليے مقامی حکام سے رجوع کيا۔ ياسر نے انہيں بتايا کہ وہ در اصل واپس پاکستان جانا چاہتا ہے۔

پاکستان ميں ياسر کے اہل خانہ کپڑوں کے کاروبار سے منسلک ہيں۔ ابتدا ميں اسے ايسا لگا کہ وہ اپنے چند رشتہ داروں کی طرح يورپ ميں ايک اچھی زندگی گزار سکتا ہے ليکن جلد ہی اسے يہ احساس ہو گيا کہ اپنا گھر اور ملک آخر اپنے ہی ہوتے ہيں اور بيرون ملک تنہائی ميں زندگی گزارنے کا کوئی فائدہ نہيں۔

ياسر نے بتايا، ’’ميں نے اس سے پہلے پاکستان کبھی نہيں چھوڑا تھا۔‘‘ اس کے بقول جرمنی پہنچنے کے بعد اسے تنہائی کا احساس کھانے لگا۔ پاکستان ميں ياسر شادی شدہ ہے اور اس کی ايک بيٹی بھی ہے۔ ياسر کہتا ہے کہ اس کے اہل خانہ کو اس کی ضرورت ہے اور اسی ليے اب وہ اپنے وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ پاکستانی مہاجر نے مزيد بتايا، ’’بھارت، افغانستان اور پاکستان ميں عورتيں اتنی آزاد نہيں، اس ليے ميں سمجھتا ہوں کہ ميری بيوی اور بيٹی کو ميری ضرورت ہے۔‘‘

ياسر پاکستان ميں موجود يورپ جانے کے خواہاں لوگوں کو اب بس ايک ہی پيغام دينا چاہتا ہے، ’’خدا کے واسطے يہاں آ کر اپنی زندگياں برباد نہ کيجيے، جو کچھ آپ کے پاس ہے، اس ميں خوش رہنا سيکھيے۔‘‘ اس پاکستانی مہاجر نے ايشيا بالخصوص پاکستان اور افغانستان ميں لوگوں سے مخاطب ہو کر انہيں خبردار کيا کہ انسانی اسمگلروں کو کسی کا خوف نہيں۔

 اس کے بقول وہ لوگوں کو بتاتے کچھ ہيں اور کرتے کچھ ہیں۔ ياسر نے بتايا جب وہ ترکی سے بلغاريہ کی طرف گامزن تھا، تو ايک مرتبہ انہيں کھائے پيے بغير تقريباً ايک ہفتہ جنگل ميں گزارنا پڑا۔ اس وقت شديد سردی تھی اور اس کے گروپ ميں عورتيں اور بچے بھی شامل تھے، ’’اسمگلر آپ سے کہتے ہيں کہ يہ بس دس سے پندرہ روز کا سفر ہے ليکن يہ نہيں بتاتے کہ يہی پندرہ دن آپ کی زندگی کے بد ترين ايام ثابت ہوں گے۔‘‘

گفتگو کے اختتام ميں ياسر نے بتايا کہ جرمنی ايک اچھا ملک ہے اور يہاں کے باشندوں نے مہاجرين کےساتھ کافی مثبت رويہ رکھا تاہم وہ يہاں چھ سات سال لگا کر ايک نئی زندگی شروع نہيں کر سکتا۔ اسے آج جينا ہے اور يہ اس کے اپنے ملک اور اپنوں کے درميان ہی ممکن ہے۔

جرمنی ميں جسم فروشی پر مجبور مرد پناہ گزين