1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے دیہاتوں میں انسانی اسمگلروں سے بچنے کی کوشش

بینش جاوید، روئٹرز
1 جون 2017

بھارت میں ایک فلاحی تنظیم ایک خاص ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے گاؤں اور علاقوں کی نشاندہی کر رہی ہے جہاں  معصوم بچیوں اور عورتوں کا انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں اغوا ہو جانے کا خطرہ زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2dzWK
Anshu Gupta
تصویر: Getty Images/AFP/M. Vatsyayana

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ’مائی چوائسز فاؤنڈیشن‘ ایسے دیہاتوں کی نشاندہی کر رہی ہے جہاں آج کے جدید دور میں بھی انسانوں کو غلام بنائے جانے کا خدشہ موجود ہے۔ ان علاقوں کی نشاندہی کے بعد وہاں آگاہی مہم کا آغاز کیا جاتا ہے تاکہ قیمتی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔

اس تنظیم کی بانی ایلکا گروبلر کا کہنا ہے، ’’بھارت میں زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بہت سے والدین یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے بچوں کو غلامی کرنے کے لیے خریدا گیا ہے۔‘‘ ایلکا کا کہنا ہے دیہاتوں میں لوگوں کو آگاہی مہم اور تعلیم کے ذریعے اس مسئلے کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کے اعتبار سے زیادہ خطرناک علاقوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ نظام غربت، تعلیم، بے روزگاری، صحت کی سہولیات اور دیگر عوامل کی بنیاد پر ڈیٹا جمع کرتا ہے۔

Indien Bildergalerie die Wasserfrauen von Maharashtra
یہ نظام غربت، تعلیم، بے روزگاری، صحت کی سہولیات اور دیگر عوامل کی بنیاد پر ڈیٹا جمع کرتا ہےتصویر: Reuters/Danish Siddiqui

دنیا بھر میں 46 ملین افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے 18 ملین افراد کا تعلق بھارت سے ہے۔ اکثر اوقات گاؤں کے لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ ان کے بچوں کو اچھی نوکریاں دی جائیں گی لیکن دراصل ان کے بچے اینٹوں کے بھٹوں میں مزدوری کرتے ہیں یا پھر ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔

سن 2016 میں بیس ہزار عورتیں انسانی اسمگلنگ کا شکار بنی تھیں۔ یہ تعداد سن 2015 سے پچیس فیصد زیادہ ہے۔ سن 2014 میں ’مائی چوائسز فاؤنڈیشن‘ نے آپریشن ریڈ الرٹ کہلائے جانے والی اس مہم کا آغاز کیا تھا جس کے ذریعے والدین، اساتذہ، بچوں اور گاؤں کے مقامی رہنماؤں کو انسانی اسمگلروں سے بچنے کے بارے میں تربیت دی گئی تھی۔ بھارت میں ساٹھ ہزار سے زائد دیہات ہیں اور اس ادارے کے وسائل محدود۔ اب اس تنظیم نے آسٹریلیا کی تنظیم کوانٹیئم کے ساتھ مل کر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔