1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے پاکستان کو ایس سی او سیمینار میں شرکت سے کیوں روکا؟

جاوید اختر، نئی دہلی
22 مارچ 2023

شنگھائی تعاون تنظیم کےافسران کی سطح پر دہلی میں ہونے والے ایک سیمینار میں پاکستانی مندوبین نے شرکت نہیں کی۔ بھارت نےان سے کہا تھا کہ وہ سیمینار میں پیش کرنے کے لیے کشمیر کے اپنے نقشے کو درست کرلیں ورنہ شرکت سے گریز کریں۔

https://p.dw.com/p/4P2xC
Shanghaier Organisation für Zusammenarbeit
تصویر: AFP/GettyImages

بھارت کے سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسس (آئی ڈی ایس اے) نے دہلی کے ایک ہوٹل میں منگل کے روز "فوجی طب، صحت کی دیکھ بھال اور وبائی امراض میں ایس سی او آرمڈ فورسز پر تعاون"کے موضو ع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان اور مبصر ممالک نے شرکت کی۔

پاکستانی مندوبین بھی اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے تھے لیکن ذرائع کے مطابق بھارت کی جانب سے اعتراض کے بعد انہوں نے اس میں شرکت نہیں کی۔

گوکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ تعلقات کے تناظر میں اسے ایک غیر معمولی اقدام سمجھا جا رہا ہے تاہم بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کا ایس سی او فریم ورک کے تحت مجوزہ دیگر میٹنگوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

معاملہ کیا تھا؟

بھارتی میڈیا میں شائع رپورٹوں کے مطابق پاکستانی عہدیداران سیمینار میں اسی طرح کے نقشے پیش کرنا چاہتے تھے، جو انہوں نے ایس سی او  کی سابقہ میٹنگوں میں پیش کیے ہیں۔ ان نقشوں میں کشمیر  کے متنازعہ خطے کو پاکستان کے علاقے کے طورپر دکھایا گیا ہے۔

 ایک ذرائع کے مطابق "منگل کے روز ہونے والے سیمینار میں پاکستانی مندوبین کشمیر کا ایک غلط نقشہ دکھانا چاہتے تھے۔ جب بھارتی وزارت خارجہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے پاکستانی وفد سے کہا کہ یا تو وہ درست نقشہ پیش کریں یا پھر سیمینار سے الگ رہیں۔"

اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت میں پھر تکرار

خیال رہے کہ ستمبر 2020 میں کووڈ وبا کے عروج کے دور میں ایس سی او کے اعلیٰ ترین سکیورٹی عہدیداروں کی ایک ورچوئل میٹنگ سے بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اس وقت واک آوٹ  کر گئے تھے، جب پاکستانی نمائندے نے دونوں ملکوں کی سرحدوں کا ایک متنازعہ نقشہ دکھایا تھا۔

بھارت نے اس وقت کہا تھا کہ اسلام آباد جان بوجھ کر "پاکستان کے فرضی نقشے" کا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ بھارت نے اس وقت ایس سی او کی صدارت کرنے والے روس سے اس معاملے پر باضابطہ اعتراض بھی کیا تھا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا ایس سی او کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ستمبر 2020 میں ایس سی او کی ایک ورچوئل میٹنگ سے بھارتی قومی سلامتی مشیر اس وقت واک آوٹ  کر گئے تھے، جب پاکستان نے دونوں ملکوں کی سرحدوں کا ایک متنازعہ نقشہ دکھایا تھا
ستمبر 2020 میں ایس سی او کی ایک ورچوئل میٹنگ سے بھارتی قومی سلامتی مشیر اس وقت واک آوٹ  کر گئے تھے، جب پاکستان نے دونوں ملکوں کی سرحدوں کا ایک متنازعہ نقشہ دکھایا تھاتصویر: AFP

پاکستان کا ردعمل

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد نے اس پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے میزبان کے طورپر اپنی حیثیت کا غلط استعمال کیا ہے اور ایس سی او کی تقریب میں ایک خود مختار رکن ریاست کی شرکت کے حق کو مسترد کرکے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔"

پلوامہ حملہ کیسے ہوا؟ کیا الیکشن لڑنے کے لیے ایسا کیا گیا؟

پاکستان نے کشمیر کی "غلط تصویر کشی" کے بھارت کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ، "جموں و کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق اقوام متحدہ کی سرپرستی میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔"

پاکستان نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے میزبان کے طور پر اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاکر ذاتی مقاصد حاصل کرنے اور تنظیم کو سیاسی رنگ دینے سے باز رہے۔

بھارت میں کشمیر کے متعلق متنازعہ سوالنامے پر ہنگامہ

خیال رہے کہ کشمیر کے متنازع نقشے کا معاملہ ایس سی او کی حالیہ برسوں میں ہونے والی میٹنگوں کو متاثر کرتا رہا ہے۔