1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں سخت گیر قوم پرست ہندوؤں کی ایک بڑی ریلی

عاطف توقیر3 جنوری 2016

اتوار کو مغربی بھارت میں سخت گیر موقف کے حامل ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہندوؤں نے خاکی جانگیے، سفید کرتے اور سیاہ ٹوپیاں پہن کر ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی کا مقصد اپنی طاقت اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا تھا۔

https://p.dw.com/p/1HXQs
Indien Organisation Rashtriya Swayamsevak Sangh
تصویر: picture-alliance/dpa

متنازعہ جماعت راشٹریا سوایم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کی یہ اب تک کی سب سے بڑی ریلی تھی۔ اس جماعت کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی حلیف بھی قرار دیا جاتا ہے۔

اس جماعت سے وابستہ مردوں نے ہاتھوں میں چھڑیاں اٹھائی ہوئی تھی اور نعرے بازی کر رہے تھے، جب کہ بعد میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے ایک قلعے کی شکل کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر اس مجمع سے خطاب کیا۔ اس موقع پر آر ایس ایس کے دو ہزار رضاکاروں کا ایک بینڈ بھی ہندو مذہب کی علامتی زعفرانی رنگ کے ایک بہت بڑے جھنڈے کے ہمراہ اس ریلی میں موجود تھا۔

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر پونے میں اس ریلی کے لیے ساڑھے چار سو ایکٹر کا علاقہ استعمال میں لایا گیا۔

آر ایس ایس خود کو ایک ثقافتی تنظیم قرار دیتی ہے اور اپنا بنیادی مقصد ہندو ثقافت کا تحفظ قرار دیتی ہے، تاہم ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ملک میں مسلم مخالف اور اقلیتیوں پرتشدد کرنے والی تنظیموں کی مدد کرتی ہے اور مذہبی کشیدگی کو ہوا دیتی ہے۔

Mohan Bhagwat Anführer der Organisation Rashtriya Swayamsevak Sangh
موہن بھگوت نے اس مجمع سے خطاب کیاتصویر: Strdel/AFP/Getty Images

ماہرین کا کہنا ہے کہ سن 2014ء میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے سے قبل کبھی اس تنظیم کا اثرورسوخ اس حد تک نہیں دیکھا گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس کے کارکنان مودی کا اپنا مثالیہ تصور کرتے ہیں اور مودی کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ ’ہم چاہیں تو یہاں تک (وزارت عظمیٰ تک) پہنچ سکتے ہیں جب کہ یہ افراد مودی کو اپنی جماعت کی طاقت کی وجہ بھی قرار دیتے پھرتے ہیں۔

اس جماعت کے ایک رضاکار کا کہنا ہے کہ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد آر ایس ایس کے کارکنان کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ’’جب تک مودی وزیراعظم ہے، آر ایس ایس ایک درست سمت پر گامزن ہے۔‘‘

آر ایس ایس کا قیام سن 1925ء میں عمل میں آیا تھا۔ ابتدا میں یہ ایک مذہبی تنظیم تھی، جب کہ اب اس کے کارکنوں کی تعداد پانچ ملین بتائی جاتی ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ افراد خود کو ’سوایم سیوک‘ قرار دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس تنظیم کے رضاکار باقاعدہ طور پر اس تنظیم کے رجسٹرڈ رکن تو نہیں ہوتے تاہم زبانی طور پر اس تنظیم سے جڑے ہوتے ہیں۔