1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں دمے کا علاج زندہ مچھلی نگل کر

2 جون 2011

بھارت میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی مہم کے سرگرم کارکنوں نے دمے کے شکار 14 سال سے کم عمر بچوں کے علاج کے لیے ٹوٹکے کے طور پر انہیں زندہ مچھلی کھلانے کی روایت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11Syf
بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بہت زیادہ مبول ہلسا مچھلیتصویر: AP

بھارتی معاشرے میں اب بھی بہت سی قدیم اور فرسودہ روایات قائم ہیں۔ انہی میں سے ایک کا تعلق دمے کے شکار بچوں کے علاج سے ہے۔ وہاں ہر سال جون میں جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے شہرحیدرآباد میں دمے کے ہزاروں مریض جمع ہوتے ہیں۔ دمے کے مرض کے علاج کے طور پر یہ مریض چھوٹے سائز کی زندہ مچھلی اور جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ایک خاص قسم کا معجون کھاتے ہیں۔

دمے کا یہ طریقہ علاج دراصل حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی Bathini Goud فیملی نے شروع کیا تھا۔ اس خاندان کا دعویٰ ہے کہ 1845ء میں ان کے اجداد میں ایک بزرگ تھے باتھینی ویران گوُڈ جو مون سون کے دوران جوتشیوں کے بتائے ہوئے دو مخصوص دنوں میں بھارت کے طول و عرض سے آئے ہوئے دمے کے مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے۔ ان مریضوں کو بل کھائی ہوئی دو انچ کی زندہ مچھلی نگلوا دی جاتی تھی تاکہ اُن کا گلا نیچے تک صاف ہو جائے۔

05.10.2010 DW-TV Fit und gesund Asthma
دمے کا مرض کھانے پینے کی بہت سی اشیاء کی الرجی سے بھی جنم لیتا ہے

اس سال آٹھ اور نو جون کو یہ قدیم تہوار منعقد ہو گا۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک گروپ بلالا ہکولا سنگھم نے ریاست کے ہیومن رائٹس کمیشن میں لابئینگ کی ہے تاکہ 14 سال سے کم عمر بچوں کو اس قسم کے غیر سائنسی طریقہءِ علاج سے بچایا جا سکے۔ اس گروپ کے سرگرم عناصر کا ماننا ہے کہ بچوں کو کچی مچھلی کھلانے کا عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس روایت پر پابندی عائد کرنے کی جو درخواست دی گئی ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کی دوا حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں دی جاتی کیونکہ ایک ہی شخص بغیر ہاتھ دھوئے لگا تار لاکھوں مریضوں کے منہ میں مچھلی ڈال رہا ہوتا ہے۔ آندھرا پردیش کے ہیومن رائٹس کمیشن نے گزشتہ منگل کو اس بارے میں ایک رپورٹ طلب کر لی ۔

باتھینی گوُڈ فیملی کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ 160 سالوں سے دمے کے مریضوں ، خاص طور سے بچوں کا علاج مچھلی اور جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ معجون کی مدد سے کر رہی ہے۔ اس فیملی کے سربراہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے یقین دلایا کہ ان کا طریقہءِ علاج بچوں کی صحت کے لیے ہر گز نقصان دہ نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کا تعلق ادویات سازکمپنیوں سے ہے، جو دمے کے خلاف عام استعمال ہونے والی ادویات بنا کر زیادہ سے زیادہ بیچنا چاہتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ مچھلی کے ذریعے دمے کے مرض کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا یہ قدیم طریقہءِ علاج کسی طرح بند کر دیا جائے۔ اس مہم پر ادویات بنانے والی فرمیں کافی رقم صرف کر رہی ہیں۔

05.10.2010 DW-TV Fit und gesund Asthma 2
دمے کے مریضوں کے پھیپھڑے خراب ہو جاتے ہیں

Bathini Goud برادرز نے بتایا کہ گزشتہ برس چار لاکھ افراد نے زندہ مچھلی نگلی اوراس فیملی کے 200 اراکین نے اس بہت بڑے اجتماع میں دمے کے مریضوں کے منہ میں یہ مچھلی ڈالنے کا کام انجام دیا۔

نئی دہلی حکومت ہر سال ’مچھلی سے علاج کے اس میلے میں شرکت کرنے والوں کے لیے خصوصی ٹرینوں کا بندوبست کرتی ہے اور اس بڑے ہجوم کی دیکھ بھال کے لیے بڑی تعداد میں پولیس تعینات کی جاتی ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں