1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں حزب اختلاف بی جے پی میں ٹوٹ پھوٹ

افتخارگیلانی، نئی دہلی13 جون 2009

بھارت میں حالیہ عام انتخابات کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کے بعد ہی سے ہی پارٹی میں افراتفری کا عالم ہے۔

https://p.dw.com/p/I8te
بی جے پی کے رہنما اڈوانیتصویر: UNI

وہ ٹوٹنے کی دھانے پر پہنچ گئی ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے پارٹی کے فیصلوں سے ناراض ہوکر ہفتے کے روز استعفی دے دیا۔

دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی ان دنوں اپنی سخت گیر ہندوتو ا کی آئیڈیالوجی پر برقرار رہنے اور پارٹی کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے آئیڈیالوجی سے سمجھوتہ کرنے کے مسئلے کے باعث کشمکش سے دوچار ہے۔پارٹی کا ایک حلقہ اس بات پر مصر ہے کہ اسے ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک کی ماتحتی میں سخت گیر ہندو آئیڈیا لوجی پر ہر حال میں قائم رہنا چاہئے کیونکہ اعتدال پسندی کاراستہ اختیار کرنے سے وہ سیکولر سمجھی جانے والی کانگریس پارٹی کی ذیلی تنظیم بن کر رہ جائے گی۔

Yashwant Sinha
یشونت سنہاتصویر: UNI

دوسرا حلقہ یہ دلیل دے رہا ہے کہ اگرپارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنا ہے تو اسے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور دیگر تمام فرقوں کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھنا ہوگا۔ یہ گروپ جرمنی اور دیگر یوروپی ملکوں میں کرسچن ڈیموکریٹ اور ری پبلکین پارٹیوں کا حوالہ دیتا ہے جو اپنی قوم پرستانہ نظریات پر برقرار رہتے ہوئے دیگر طبقوں کو بھی ساتھ لے کر چلتی ہیں۔

خود کو سب سے زیادہ منظم پارٹی قراردینے والی بی جے پی میں داخلی اختلافات پچھلے چند دنوں کے اندر کھل کر سامنے آگئے جس کی وجہ سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کافی شرمندگی اٹھانی پڑرہی ہے۔ بہر حال پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگا اور انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں برملا کہا:’’ پارٹی ڈسپلن شکنی کو کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کر ے گی اور کسی بھی سطح پر ڈسپلن شکنی کوبرداشت نہیں کیا جائے گا اور پچھلے چند دنوں کے دوران جو کچھ ہوا ہے اس سے ہمارے کارکنوں کو تکلیف پہنچی ہے‘‘۔

خیال رہے کہ پچھلے چند دنوں کے دوران بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں نے پارٹی کے خلاف بیانات دیے ہیں۔ ان میں سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ، یشونت سنہا اور سدھیندر کلکرنی شامل ہیں۔ جسونت سنگھ کے میڈیا کو دیے گئے بیانات، سدھیندر کلکرنی کے مضمون اور یشونت سنہا کے پانچ صفحات پر مشتمل خط نے پارٹی کو مصیبت میں ڈال دیا۔ یشونت سنہا نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنما شکست کی ذمہ داری قبول کرنے سے کترارہے ہیں اورجولوگ پارٹی کی شرمناک شکست کے لئے ذمہ دار ہیں انہیں نوازا جارہا ہے جبکہ پارٹی میں احتساب کا عمل ختم ہورہا ہے۔

ان کا واضح اشارہ لال کرشن اڈوانی کو لوک سبھا میں پارٹی لیڈر اور ارون جیٹلی کو راجیہ سبھا میں پارٹی لیڈر بنانے کی طرف ہے۔پارٹی کے کئی مقتدر لیڈروں کا خیال ہے کہ ان دونوں لیڈروں کے منصوبوں اور لائحہ عمل کی وجہ سے ہی بی جے پی کو شرمناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔حتیٰ کہ پارٹی ورون گاندھی کے مسلم مخالف بیانات پر بھی کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرسکی جس سے پارٹی کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہی ہوا ۔

Indien Parlamentswahlen 2009 Der BJP Poltiker Varun Gandhi
ورون گاندھیتصویر: UNI

تاہم راج ناتھ سنگھ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے بعض لیڈروں کے بیانات سے یہ رائے بن رہی ہے کہ پارٹی اپنی شکست کا احتسا ب نہیں کررہی ہے جبکہ یہ درست نہیں ہے، پارٹی میں مختلف سطحوں پرتبادلہ خیال کا سلسلہ جاری ہے اور اگست میں اعلی سطحی میٹنگ میں اس کا نتیجہ سامنے آئے گا۔

راج ناتھ سنگھ نے تسلیم کیا کہ پارٹی کے متعدد سینئر لیڈروں کی طرف سے طرح طرح کے بیانات کی وجہ سے پارٹی کا امیج متاثر ہورہا ہے اس لئے اب کسی بھی لیڈر کی طرف سے اپنی طرف سے بیانات دینے پر پابندی لگائی جارہی ہے۔

یہاں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب تو آنے والے دنوں میں ہی یہ پتا چل سکے گا کہ بی جے پی میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ کیا پارٹی اپنے سخت گیر ہندوتو کو برقرار رکھے گی یا اقتدار حاصل کرنے کے لئے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرے گی۔