1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں جنسی زیادتی کا مسئلہ شدید سے شدید تر ہوتا ہوا

William Yang/ بینش جاوید مرلی کرشنن
16 مئی 2017

بھارت میں جنسی زیادتی اور قتل کے ایک اور انتہائی اندوہناک واقعے نے ایک بار پھر بھارت میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کی جانب دنیا کی توجہ مرکوز کرا دی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کا تحفظ بھارت میں ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/2d4dn
Indien Vergewaltigung Uttar Pradesh Proteste
تصویر: picture-alliance/dpa

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار مُرلی کرشنن لکھتے ہیں کہ حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران بھارت بھر میں جنسی زیادتی کے خوفناک حد تک زیادہ تعداد میں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں یہ واقعات مسلسل سفاک سے سفاک تر اور بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں، جب بھارت میں یہ سوال سر اٹھائے کھڑا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے آخر کیا اقدامات کیے جائیں۔

انتہائی بھیانک اور ہولناک واقعہ گزشتہ ہفتے روہتک میں پیش آیا جو ملک کی شمالی ریاست ہریانہ کا ایک شہر ہے۔ ایک 23 سالہ خاتون کو سات افراد نے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے قتل کر کے اس کے چہرے کو پتھروں سے کچل دیا تاکہ اس کی شناخت معلوم نہ ہو سکے۔ اس خاتون کا بُری طرح کچلا ہوا جسم اُس وقت دریافت ہوا جب آوارہ کُتے اس کی باقیات کو نوچ رہے تھے۔ قتل کے اس واقعے کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز بھی دہل گئے۔ اس سلسلے میں دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ باقی ابھی تک مفرور ہیں۔

اس واقعے کے چند دن بعد ہی ایک 22 سالہ خاتون کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے مضافاتی علاقے گروگرم میں تین افراد نے چلتی ہوئی کار میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ذمہ دار افراد ابھی تک مفرور ہیں۔

یہ دونوں واقعات بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ان چار مجرموں کی موت کی سزا کے خلاف اپیل کو مسترد کرنے کے بعد ہوئے جنہوں نے نئی دہلی ہی میں ایک میڈیکل کی طالبہ کو 2012ء میں ایک چلتی بس میں انتہائی بے دردی کے ساتھ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئی تھی۔ اس واقعے نے عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں جگہ پائی تھی اور اس بات کی جانب توجہ مرکوز کرائی تھی کہ بھارت میں خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

بھارت میں جنسی زیادتی اور تشدد کے جاری واقعات میں حالیہ دنوں کے دوران ممبئی کی ایک 24 سالہ خاتون پریانکا گورو کا قتل بھی ہے جسے شادی کے محض پانچ روز بعد ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اُس کا ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہوا جسم ایک جنگل میں بکھرا ہوا ملا۔

گزشتہ ماہ ایک 10 ماہ کی بچی کو مغربی ریاست گجرات کے ضلع جام نگر میں مبینہ طور پر اُسی بچی کے خاندان کے ایک فرد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس سے ایک ماہ قبل ملک کے جنوبی حصے کے شہر چنئی میں ایک 15 سالہ لڑکی نے خود کو آگ لگا لی کیونکہ اس کے ایک قریبی رشتہ دار نے اُس سے جنسی زیادتی کی اور پھر دھمکی دی کہ اگر اُس نے زبان کھولی تو پھر وہ اس زیادتی کی ویڈیو کو عام کر دے گا۔

Gruppenvergewaltigung Proteste Urteil gegen Teenager in Neu Delhi Indien
نئی دہلی میں ایک میڈیکل کی طالبہ کو 2012ء میں ایک چلتی بس میں انتہائی بے دردی کے ساتھ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئی تھیتصویر: Reuters

مُرلی کرشنن کے مطابق جنسی زیادتی کے ان بڑھتے ہوئے واقعات کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ چھوٹی بچیوں کے خلاف ایسے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بھارت کے کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی طرف سے مرتب کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 2015ء کے دوران بھارت بھر میں بچوں کے خلاف جرائم کے 8,800 ایسے کیسز درج ہوئے جو جنسی جرائم کے خلاف بچوں کے تحفظ کے قانون کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی واقعات میں یہ جرم کرنے والے یا تو ان بچوں کے رشتہ دار تھے یا ایسے افراد جنہوں نے انہیں ملازم رکھا ہوا تھا۔

 

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید