1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں تیلنگانہ مسئلے پر ہنگامے جاری

24 دسمبر 2009

بھارت کی وفاقی حکومت کی طرف سے علٰیحدہ تیلنگانہ ریاست کے مطالبے پر موقف تبدیل کرنے کےخلاف جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں دوسرے دن بھی پرتشدد ہنگامےجاری رہے۔

https://p.dw.com/p/LD8P
تیلنگانہ راشٹر سمِتی کے سربراہ چندر شیکھر راؤتصویر: AP

آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدرآباد میں تیلنگانہ حامی طلبا اور پولیس کے درمیان کئی مقامات پر زبردست جھڑپیں ہوئیں۔ تاریخی عثمانیہ یونیورسٹی میں بھی احتجاجی طلبا کی تحریک نے پُرتشدد شکل اختیار کر لی جہاں مشتعل طلبا کو کنٹرول کر نے کے لئے پولیس کولاٹھی چارج کے علاوہ ربڑ کی گولیاں بھی چلانا پڑیں، جن سے ایک طالب علم زخمی ہوگیا۔ طلبا نے تیلنگانہ مخالف جماعت تیلگو دیشم پارٹی کے رکن اسمبلی ناگم جناردھن ریڈی کو اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ وہ طلبا سے اظہار یکجہتی کرنے کے لئے یونیورسٹی آئے تھے جبکہ پوری ریاست میں مرکزی حکومت کے طرزعمل کے خلاف دوروزہ ہڑتال کے باعث معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔

ادھر اس مسئلے نے پوری ریاست کو ایک سنگین سیاسی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ ریاست کی کانگریس حکومت کو سمجھ نہیں آرہا ہے وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹے کیونکہ علٰیحدہ تیلنگانہ ریاست کی حمایت اور مخالفت میں حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کے اراکین اسمبلی اور پارلیمان کے استفعوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ابتک چودہ ارکان پارلیمان اور ایک سو ارکان اسمبلی استفعیٰ دے چکے ہیں۔ ریاست کے وزیراعلیٰ کے روسیہ نے بڑی مشکل سے تیلنگانہ سے تعلق رکھنے والے اپنی کابنیہ کے ارکان کو مستعفی ہونےسے روکا۔ ریاست کے دگرگوں حالات نے کانگریس کی مرکزی اور ریاستی قیادت کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔

Protestversammlung in Indien
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنان احتجاج کرتے ہوئےتصویر: UNI

تازہ ہنگامے اس وقت شروع ہوئے جب وفاقی حکومت نے تیلنگانہ مسئلے کو پس پشت کرنےڈالنے کا عندیہ دیا۔ بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے نو دسمبرکوعلٰیحدہ تیلنگانہ ریاست کی تشکیل کا عمل شروع کرنے اعلان کیا تھا مگر بعدازاں حکومت نے اپنا موقف تبدیل کر تے ہو ئے کہا کہ وہ اس ریاست کے تمام فریقوں سے مشاورت کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ موقف کی تبدیلی کا دفاع کرتے ہوئے کانگریس کی سینیئر لیڈر اور مرکزی وزیراطلاعات و نشریات امبیکا سونی نے کہا کہ کوئی بھی اہم قدم بغیر مشاورت کے نہیں اٹھایا جاسکتا۔’’یکطرفہ فیصلہ کرنا اور اسے نافذ کرنا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس پر سب سے رائے لینے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھائے گی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ کانگریس نے اس معاملے میں عجلت سےکام لیا۔ سیاسی تجزیہ کار ارملیش نے کہا کہ تیلنگانہ مسئلے پرحکومت نے دو مرتبہ موقف تبدیل کر کے ایک غلط پیغام دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اڈہاک فیصلے کر رہی ہے جن کی وجہ سے ریاست گزشتہ بیس دنوں سے لا قانونیت کا شکارہے۔

تیلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے لیڈر کے چندر شیکھر راؤ علٰیحدہ ریاست تحریک کے اصل روح رواں ہیں اور ان کی حالیہ بھوک ہڑتال کے نتیجے میں اس مطالبے نے زور پکڑا ہے۔ راوٴ نے حکومت کو خبردار کیا ہےکہ وہ تیلنگانہ ریاست کے تشکیل میں مزید کوئی تاخیر نہ کرے، بصورت دیگر ریاست میں 'بغاوت' پھیل جائے گی جسے طاقت کے بل بوتے پر دبایا نہیں جاسکے گا۔

بتایا جاتا ہے کہ وزیرآعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے وزیر داخلہ پی چدمبرم سے کہا ہے کہ وہ نئی ریاستوں کی تشکیل کے مطالبات کا جائزہ لینے کے لئے ایک نیا ریاستی کمیشن بنانے کے لئے ایک خاکہ تیار کریں۔ اس وقت بھارت میں ایک درجن سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے لئے تحریکیں چل رہی ہیں۔ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ چھوٹی ریاستیں ترقی کی رفتار بڑھانے کا وسیلہ نہیں ہیں۔

ارمیلیش کہتے ہیں کہ نو سال قبل وجود میں آنے والی جھارکھنڈ، اتراکھنڈ اور چھتیس گڑھ کسی بھی محاذ پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کر سکیں اور وہ ابھی تک مرکز کی طرف سے دی جانے والی امداد پر ہی انحصار کررہی ہیں۔

دوسری طرف دارالحکومت نئی دہلی میں تیلنگانہ سے تعلق رکھنے والےگیارہ کانگریسی ارکان پارلیمان نے اپنے استعفے پارٹی صدر سونیا گاندھی کو پیش کر دئے ہیں اور ان سے مطالبہ کیا ہےکہ اس مسئلے پر اب کوئی تاخیر نہ کی جائے۔ دریں اثناء علٰیحدہ تیلنگانہ ریاست کی تحریک چلانے والی آل پارٹی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے کرسمس کے پیش نظر جمعہ کو احتجاج معطل کر نے کا اعلان کیا ہے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : گوہر نذیر گیلانی