1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: صحافی ارنب گوسوامی 14 دنوں کے لیے عدالتی تحویل میں

جاوید اختر، نئی دہلی
5 نومبر 2020

خودکشی کے لیے اکسانے کے جرم میں گرفتار بھارتی صحافی اور ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کو عدالت نے 14دنوں کے لیے عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ktcz
Arnab Goswami
تصویر: AFP via Getty Images

بھارتی ریاست مہاراشٹر کی ایک مقامی عدالت نے ایک انٹیریئر ڈیزائنر اور ان کی والدہ کو خودکشی کے لیے اکسانے کے الزام میں بدھ کے روز گرفتار کیے گئے خود پسند صحافی ارنب گوسوامی کو 14دنوں کے لیے اپنی تحویل میں دینے کی پولیس کی مانگ کو گوکہ مسترد کرتے ہوئے عدالتی تحویل میں بھیج دیا تاہم گوسوامی کے اس الزام کو بھی مسترد کردیا کہ گرفتاری کے دوران ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی۔

پولیس تحویل کی صورت میں ملزم کو متعلقہ کیس میں پوچھ گچھ کے لیے تھانے کے اندر لاک اپ میں رکھا جاتا ہے جبکہ عدالتی تحویل میں ملزم جیل کے اندر کسی مجسٹریٹ کی تحویل میں رہتا ہے۔

ارنب گوسوامی پر الزام ہے کہ انہوں نے انٹیریئر ڈیزائنر انووئے نائیک اور ا ن کی والدہ کوخودکشی کے لیے مجبور کیا تھا۔ ارنب پر الزام ہے کہ انہوں نے انووئے کی کمپنی کو اپنی اسٹوڈیوڈیزائن کرنے کا ٹھیکہ دیا تھا لیکن کام مکمل ہونے کے بعد انہیں پانچ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ادا نہیں کی۔

نووئے نے پیسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ارنب اپنے سیاسی اثر و رسوخ اورحکمراں جماعت بی جے پی سے اپنی وابستگی کی وجہ سے بچ گئے۔ اس سے تنگ آکر انووئے اور ان کی والدہ نے مئی 2018 میں خودکشی کرلی تھی۔ خودکشی سے قبل انہوں نے ایک خط لکھا تھا جس میں اس انتہائی قدم کے لیے ارنب گوسوامی اور ان کے دو ساتھیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

ارنب کی سرزنش

کل بدھ کے روز جب پولیس ارنب گوسوامی کو حراست میں لینے کے لیے پہنچی تو زبردست ڈرامہ دیکھنے کو ملا۔ ارنب نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ لیکن عدالت نے ان کے اس الزام کو مسترد کردیا۔ جج نے اس کے علاوہ عدالت کے اندر فون کا استعمال کرنے اور گرفتاری کی کارروائی کی لائیو ٹیلی کاسٹ کرنے پر بھی ارنب کی سرزنش کی۔ ارنب آج جمعرات کو اپنی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔

 ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا کہ ارنب گوسوامی جس طرح کی جانبدارانہ صحافت کرتے ہیں وہ ہرگز پسندیدہ نہیں تاہم ان کے خلاف اس طرح کی کارروائی بھی درست نہیں ہے۔"  ان کا مزید کہنا تھا کہ  ”حکومتیں کسی نہ کسی بہانے صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی ہیں جو قابل مذمت ہے اور اسی وجہ سے ہم نے ارنب گوسوامی کا بھی دفاع کیا ہے۔“

یہ کہاں کا انصاف ہے؟

اس دوران متوفی انووئے نائیک کی اہلیہ اکشیتا نائک نے ارنب کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم ایک عرصے سے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے، پولیس نے پہلا قدم اٹھایاہے۔ ہم غیرجانبدارانہ انصاف چاہتے ہیں۔" انووئے کی بیٹی ادانیائک نے بھی کہا کہ ”ہم نے ممبئی کے اعلی افسران اور دیگر افسران سے ملاقاتیں کی اور ان سے کارروائی کرنے کی اپیل کی، حتی کہ ہم نے وزیر اعظم کے دفتر کو بھی خط بھیجا لیکن کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی۔“

اکشتا نائک نے ارنب گوسوامی کی طرف سے فلم اداکار سشانت سنگھ راجپوت کے خودکشی معاملے کو اپنے نیوز چینل پر غیر معمولی طورپر اچھالنے کا ذکر کرتے ہے ہوئے کہا کہ سشانت سنگھ راجپوت نے کوئی سوسائیڈ نوٹ نہیں چھوڑا تھا اس کے باوجود ارنب گرفتاری پر زور دیتے رہے لیکن ”میرے شوہر نے تواپنے سوسائیڈ نوٹ میں ارنب اور دو دیگر لوگوں کا باضابطہ نام لیا تھا، آخر اس کے باوجود کوئی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی، یہ کہاں کا انصاف ہے؟"

سیکولر بھارتی آئین کا مستقبل خطرے میں، نوبل انعام یافتہ امرتیا سین

 ارنب گوسوامی کو گرفتار کیے جانے کے بعد ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مودی حکومت کی تقریباً پوری کابینہ ارنب کی حمایت میں میدان میں اترآئی۔ تمام رہنماوں نے ان کی گرفتاری کے خلاف مذمتی بیانات دیے اور اسے پریس کی آزادی پر زبردست حملہ اور ایمرجنسی کے دور کی یاد دہانی قرار دیا۔

خود اپنے تیر کا شکار

صحافیوں کی انجمن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور نیوز براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن(این بی اے) نے بھی ارنب گوسوامی کی گرفتاری کی مخالفت کی تاہم ممبئی کی ٹیلی ویزن جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے کہا کہ یہ کیس ایک ذاتی معاملہ ہے اور اس کا صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ این بی اے نے مہاراشٹر کے وزیر اعلی سے ذاتی انتقام کی بنیاد پر کسی صحافی کے خلاف کارروائی نا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ارنب گوسوامی کے طرز صحافت کی تائید نہیں کرتی ہے۔

بھارتی صحافی اور روزنامہ'انقلاب‘کے مدیر شکیل شمسی کا کہنا تھا کہ ”سچ تو یہ ہے کہ ارنب صحافتی اصولوں، ضابطوں او رقدروں کی دھجیاں اڑانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ اس لیے اگر بی جے پی کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی تنظیمیں ان کی گرفتاری کی مذمت کررہی ہیں تو وہ غلط ہیں کیوں کہ ارنب کو صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔ بلکہ ارنب تو خود اسی تیر کا شکار ہوئے ہیں جس سے وہ ریا چکرورتی کا تین مہینے سے زیادہ عرصے تک شکار کرتے رہے۔"

شکیل شمسی کا مزید کہنا تھا کہ ”ارنب کی گرفتاری کو سیاسی رقابت کا نتیجہ قرار دینے والے بی جے پی والے یہ بھی بتائیں کہ جب منی پور میں ایک صحافی کشور چند کو وہاں کے وزیر اعلی کے خلاف ایک پوسٹ ڈالنے کے جرم میں 130دنوں تک جیل میں رکھا گیا، اس وقت صحافیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی یاد انہیں کیوں نہیں آئی؟"

ممبئی پولیس ارنب کے خلاف پہلے سے ہی مبینہ ٹی آر پی گھپلے کی بھی انکوائری کررہی ہے۔ اس میں بھی ارنب کی ریپبلک ٹی وی کے ذریعہ ٹی آر پی بڑھانے کے لیے دھوکہ دہی کا الزام لگایا گیا ہے۔ حالانکہ ریپبلک ٹی وی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں