1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت تعلیمی اصلاحات کی مخالفت

3 جولائی 2009

بھارت میں تعلیم کے شعبے میں انقلابی اصلاحات کی حکومت کی تجویز کی ایک بڑے حلقے کے طرف سے مخالفت شروع ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/Igg3
بھارت میں تعلیم کے شعبے میں اصلاحات اس وقت زباں زدعام ہیںتصویر: AP

صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکمراں جماعت کے اندر بھی ان مجوزہ اصلاحات پر تحفظات کااظہار کیا جارہا ہے۔ انسانی وسائل کے فروغ کے مرکزی وزیر کپل سبل نے اپنی وزارت کے اگلے 100دنوں کا پروگرام پیش کرتے ہوئے تعلیم کے شعبے میں کئی انقلابی اصلاحات کی تجویز پیش کی تھی۔

ان تجاویز میں سب سے اہم تجویز دسویں کے بورڈ امتحانات کو 2010تک اختیاری اور بارہویں درجے کے بورڈ امتحانات پورے ملک میں صرف ایک بورڈ کے تحت کرانے سے متعلق تھی۔ اس وقت یہ امتحانات 24 مختلف بورڈوں کے تحت کرائے جاتے ہیں لیکن کپل سبل کی طرف سے پیش کردہ ان تجاویز کی خود ان کی کانگریس پارٹی کے متعدد اہم رہنماؤں اور پارٹی کی حکومت والی ریاستوں کی طرف سے مخالفت شروع ہورہی ہے۔ جس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان تجاویز کو کہیں سردخانے میں ڈالنا نہ پڑ جائے۔

اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے تعلیم نے بھی یہاں ایک میٹنگ کی۔ جس میں انہوں نے کپل سبل کی تجویز کو یک طرفہ قراردیا اور نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ بھارت کے وفاقی ڈھانچے کے تحت تعلیم ریاستی حکومتوں کا موضوع ہے اس کے باوجود اتنا اہم فیصلہ کرنے سے پہلے ریاستوں سے رائے لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ بی جے پی کے سینئر رہنماء اور انسانی وسائل کے فروغ کے سابق وزیر مرلی منوہر جوشی نے کہاصرف امتحان اور بورڈ میں سدھار سے بھارت میں تعلیمی نظام میں سدھار ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے تاہم واضح کیا کہ بی جے پی ملک میں تعلیمی اصلاحات کے خلاف نہیں ہے۔

دلچسپ با ت یہ ہے کہ تعلیم میں ان انقلابی اصلاحات کی تجویز کی مخالفت کانگریس پارٹی کی قیادت والی راجستھان اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں کی حکومتوں کی طرف سے بھی ہورہی ہےجب کہ بائیں بازو کی حکومتوں والی ریاست مغربی بنگال اور کیرالہ نے بھی اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔

کپل سبل نے دسویں درجے کے بورڈ امتحانات کو اختیاری بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ ان امتحانات کی وجہ سے طلبہ شدید دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات وہ خودکشی جیسے انتہائی قدم بھی اٹھالیتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’امتحانات کی تناؤ کو دور کرنے کے لئے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے‘ یہ بات درست نہیں ہے کہ صرف امتحانات ہی طلبہ میں تناؤ پیدا کرتے ہیں بلکہ سسٹم کی بھی کچھ کمزوریاں ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالات بھی اس کا سبب ہیں۔ اچھے اور اعلٰی تعلیم کے مواقع کی بھی کمی ہے۔‘‘

انسانی وسائل کے فروغ کے سابق وزیر ڈاکٹر جوشی نے کپل سبل کے تعلیمی اصلاحات کو بے سمت اور جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تعلیمی شعبے میں اصلاح کرنا ہے تو یہ کام پرائمری سطح سے شروع کرنا ہوگا۔

’’ تعلیمی اصلاحات ایک یا دو سال میں ممکن نہیں ہوتیں اس میں کم سے کم ایک دہائی یا دو دہائی کا وقت لگتا ہےکیوں کہ جس بچے نے ابھی پڑھنا شروع کیا ہے اسے اعلٰی تعلیم تک پہنچنے میں 18 سال لگیں گے۔ اس لئے آج جو کام ہم شروع کریں گے اس کا نتیجہ 18سال بعد سامنے آئے گا اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت ملک کیسا ہوگا اور دنیا کیسی ہوگی۔ اس لئے ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کوئی سدھار کرنا ہوگا‘‘۔

دریں اثناء اپوزیشن اورخود اپنی پارٹی کے اندر سے مخالفت کے باوجود کپل سبل نے کہا کہ وہ تعلیمی اصلاحات کا عمل شر وع کرنے کی اپنی تجویز پر قائم ہیں البتہ اس سلسلے میں اتفاق رائے بنانے کی کوشش کریں گے۔سبل نے واضح کیا کہ انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اصلاحات 100 دنوں کے اندر ہوجائیں گی کیوں کہ ایسا ممکن بھی نہیں ہے، لیکن اس دوران عملی اقدام کا آغاز ضرور ہوجائے گا۔انہوں نے دعوی کیا کہ بہت بڑے حلقے سے ان کی تجویز کی تائید ہو رہی ہے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر