1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کشمیر میں حالات اب بھی کشیدہ ، مودی کی امن کی اپیل

جاوید اختر، نئی دہلی12 جولائی 2016

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلسل چوتھے روز بھی حالات کشیدہ ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 31 ہو گئی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی نے تشدد پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JNeS
تصویر: Lalit Kumar

وزیراعظم نریندر مودی نے چار افریقی ملکوں کے دورہ سے آج بارہ جولائی کو نئی دہلی واپس لوٹنے کے فوراً بعد سلامتی امور سے متعلق کابینہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں متعدد سینئر وزراء، قومی سلامتی کے مشیر اور خارجہ سکریٹری وغیرہ موجود تھے۔ میٹنگ کے بعد وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) میں وزیر جتندر سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ مسٹر مودی نے جموں و کشمیر میں امن و سکون بحال کرنے کی اپیل کی اور کہا ہے کہ وہاں کسی بھی بے گناہ شخص کی جان نہیں جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کشمیر کی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہے اور امن بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے نیز امن کی بحالی کے لیے ریاستی حکومت کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

جتندر سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ میٹنگ میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کشمیر کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے وزیر اعظم کو تفصیلات بتائیں اور گزشتہ تین چار دنوں کے دوران مرکز اور ریاستی حکومت کے ذریعہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ میٹنگ میں صورت حال پر قابو پانے کے لیے مختلف لائحہ عمل اور کشمیر میں پیدا صورت حال پر پاکستان کے رویہ اور ردعمل پر بھی بات چیت ہوئی۔ دریں اثنا ماہرین اور مبصرین کاخیال ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے مرکز اور ریاستی حکومت کو کثیر الجہتی لائحہ عمل پر کام کرنا ہوگا۔

یہاں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں کشمیری امور کے ماہر ہیپی مون جیکب کا خیال ہے کہ نریندر مودی حکومت کو فوراً ایک کل جماعتی وفد کشمیر بھیجنا چاہیے۔ جیکب کا کہنا تھا کہ 2010 ء میں جب مبینہ فرضی تصادم میں تین نوجوان کشمیریوں کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں حالات بگڑ گئے تھے تب اس وقت کی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے ایک انتالیس رکنی کل جماعتی وفد وادی کشمیر بھیجا تھا، جس نے تمام فریقین سے بات چیت کی تھی۔ اس فیصلے سے تشدد میں فوراً کمی آگئی تھی۔ جیکب کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی کو متاثرین کے پاس جا کر ان کے دکھ درد کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بتایا جاتا ہے کہ حالات کی نزاکت کے مدنظر محبوبہ مفتی کی پارٹی کے کسی بھی ممبر اسمبلی نے اپنی جان کے ڈر سے لوگوں سے ملاقات کرنے کی ہمت نہیں کی ہے دوسری طرف وزیر اعلی نے بھی صرف دو بیانات جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔

کشمیر معاملات سے وابستہ ایک اور ماہر ایم ایم انصاری کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو حریت کانفرنس کے لیڈروں سے بھی بات چیت کرنی چاہیے، جس طرح اٹل بہاری واجپئی اور من موہن سنگھ نیز سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے بھی حریت لیڈروں سے ملاقات کی تھی۔ ایم ایم انصاری سابقہ متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ اس تین رکنی مذاکرات کمیٹی کے ایک رکن تھے، جسے جموں و کشمیر کے لیے سیاسی روڈ میپ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ انصاری کا سوال تھا،’’آج کی میٹنگ میں آخر جموں و کشمیر کی وزیر اعلی موجود کیوں نہیں تھیں۔ حکومت جموں و کشمیر میں مساجد کے اماموں سے بات چیت کیوں نہیں کر رہی ہے۔‘‘

دریں اثنا موصولہ اطلاعات کے مطابق دہلی یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویٹ کے ایک طالب علم عامرنذیر کی ہلاکت کے ساتھ ہی بھارتی سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی موت کے بعد گزشتہ چار دنوں سے کشمیر میں جاری تشدد میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر اکتیس ہوگئی ہے۔ عامر نذیر عید کی چھٹیاں منانے اپنے گھر گئے تھے۔ تشدد کے ان واقعات میں زخمیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار بتائی جاتی ہے۔ متعدد افراد سکیورٹی فورسز کی طرف سے فائر کردہ چھروں سے زخمی ہوکر بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔

Indien Kaschmir Auseinandersetzungen in Srinagar Straßensperre
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan
Indien Kaschmir Auseinandersetzungen in Srinagar Polizeioffizier sichert
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan