1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی مسلم خواتین کی ’نیلامی‘ اور بھارت کی سبکی

20 جنوری 2022

بھارت میں نفرت و فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز مہم میں مسلمان خواتین کو بھی مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/45q8M
Zeenat Akhte
تصویر: privat

بھارت میں نفرت و فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز مہم میں مسلمان خواتین کو بھی مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں ریل کے سفر کے دوران مجھے اس طرح  کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔ ایک سفر کے دوران بعض لا ابالی قسم کے نوجوان مجھے حجاب میں دیکھ کر فقرے کسنے لگے۔

میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب مجھے ایسی نا خوشگوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے عافیت اسی میں جانی کہ ان نوجوانوں سے الجھا نہ جائے۔

میں سمجھتی ہوں کہ اس میں ان ناسمجھ نوجوانوں کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ ان کے ذہن ایک ایسی خاص سیاسی فکر کے زیر اثر آ چکے ہیں، جس کا پرچار حکمران طبقے میں شامل کچھ عناصر کر رہے ہیں۔

 ہمارے ملک کے وزیر اعظم خواتین کی عظمت و حرمت کے لیے ”بیٹی بچاؤ،  بیٹی پڑھاؤ" جیسا پرکشش نعرہ لگاتے ہیں لیکن دوسری طرف ملک میں مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات نہ صرف گلی کوچوں اور بازاروں میں پیش آ رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی اس کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔

خواتین کو بے عزت اور بدنام کرنے کے لیے 'نیلامی‘ کے ایپ بنائے جا رہے ہیں اور ان کا سوشل میڈیا پر منظم انداز میں تعاقب کیا جا رہا ہے، ایسے ہی جیسا موجودہ حکومت کے مخالفین کا کیا جا رہا ہے۔

پچھلے ماہ دسمبر میں گِٹ ہب پر'سولی ڈیل‘  ایپ کے بعد ایک نیا ایپ 'بلی بائی‘کی شکل میں سامنے آیا، جس میں لڑکیوں سے لے کر 65 سال سے زیادہ عمر کی معمر خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔

ہندو قوم پرستی کے کٹر نظریے سے متاثرہ کالج کے لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک گروپ نے 'بلی بائی‘ ایپ بنایا، جس میں انہوں نے زیادہ تر ایسی مسلم خواتین کی تصاویر اپ لوڈ کیں اور انہیں گِٹ ہب پلیٹ فارم پر 'نیلام‘ کے لیے پوسٹ کیا ہے، جو سماجی میدان میں سرگرم ہیں۔

اس شرمناک حرکت کا ایک  دلخراش پہلو یہ بھی ہے کہ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے 'گمشدہ‘ طالب علم محمد نجیب کی بوڑھی ماں کا نام بھی 'بلّی بائی‘ نیلامی میں درج ہے، جو اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے سرگرم تھیں۔

نجیب جے این یو کا طالب علم تھا، جو کنہیا کمار کے 'آزادی‘ ایجی ٹیشن کے دوران کیمپس سے غائب ہو گیا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نجیب کو کیمپس میں ہی دائیں بازو کے ہندو قوم پرست کارکنوں نے مبینہ طور پر قتل کر کے اس کی لاش کو کہیں دبا دیا ہے۔

اس ایپ میں 'نیلامی‘  کے لیے پیش کی جانے والی خواتین متنازعہ اور امتیازی نوعیت کے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک میں بھی پیش پیش تھیں۔ 'بلّی بائی‘  دراصل ہندی زبان میں ایک توہین آمیز اصطلاح ہے، جسے دائیں بازو کی ہندو ٹرول آرمی مسلمان خواتین کو رسوا کرنے کی غرض سے استعمال کرتی ہیں۔

اس ایپ سے قبل گزشتہ سال جولائی میں 'سولی ڈیلز' کے عنوان سے ایک  ایپ منظر عام پر آیا تھا، جس میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی  نامور مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس ایپ میں ان خواتین کی تصویروں کے علاوہ ان کے 'پروفائل‘ یا ان کی زندگی کی تفصیلات کو نہ صرف عام کیا گیا بلکہ اسے 'ڈیلز آف دی ڈے'  کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔

ان 'قابل فروخت‘ خواتین کی  فہرست میں کمرشل پائلٹ حنا خان کا نام اور تصویر بھی شامل تھی، جنہیں ان کی ایک دوست نے  ٹوئٹر کے توسط سے اس بارے میں آگاہ کیا۔

جب حنا نے اپنا نام اور تصویر دیکھی تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس ایپ کے پہلے صفحے پر ایک نامعلوم عورت کی فوٹو چسپاں تھی جبکہ  اگلے دو صفحات پر حنا خان کو اپنی سہیلیوں کی تصویریں نظر آئیں۔  وہیں اس کے بعد والے صفحہ پر خود ان کی تصویر موجود تھی۔ اس میں 80 سے زائد تصاویر تھیں۔ اس ایپ پر ان خواتین اس طرح نمائش کی گئی کہ جیسے وہ 'سولی' خریدنے کا موقع دے رہی ہوں۔

حنا خان کہتی ہیں کہ اس ٹولے نے ان کی یہ تصویر ان کے ٹوئٹر ہینڈل سے اٹھائی اور اس پر  'یوزر نیم' وہ لکھا جو وہ ٹوئٹر پر استعمال کرتی ہیں۔  

 ’بلّی بائی‘، کی طرح  'سولی‘  بھی ایک تضحیک آمیز لفظ ہے جو ہندوتوا نظریے کے علمبردار مسلم عورتوں کو آن لائن ٹرول یا دق کرنے کی غرض سے برتتے ہیں۔ درحقیقت یہ کوئی نیلامی کا معاملہ نہیں تھا بلکہ اس ایپ کا مقصد ایسی مسلمان خواتین کی کردار کشی کرنا تھا جو اپنے اپنے میدانوں میں ایک مقام رکھتی ہیں۔

بہر حال ممبئی پولیس کی سائبر برانچ نے سب سے پہلے ان ڈیوائسز کے آئی پی ایڈریس کا پتہ لگایا، جن سے ایپ پر تصاویر اپ لوڈ کی گئی تھیں اور آئی پی ایڈریس کے ذریعے ہی مجرموں کے مقامات کا پتہ لگایا اور وہ اس طرح مجرموں کے پکڑ لیا گیا۔

ان میں اتراکھنڈ کے انیس سالہ شویتا سنگھ اور اکیس سالہ میانک راوت، بنگلورو سے اکیس سالہ وشال کمار جھا ، جورہاٹ آسام کے نیرج بشنوئی، اور اندور سے اومکریشور ٹھاکر شامل ہیں۔ یہ سب اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن ان کی ذہن سازی ہو چکی ہے، جیسا کہ نیرج بشنوئی نے پولیس کو بتایا کہ وہ مسلمانوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔

تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ یہ تمام نوجوان ایک دوسرے کو جانتے تھے اور نیپال میں مقیم کسی شخص کی ہدایات پر کام کر رہے تھے۔ وہ  ہندوتوا نظریہ سے متاثر ہیں اور بھارت کو 'ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

ممبئی اور دہلی کی سائبر برانچ پولیس کی ان گرفتاریاں سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ہندو سائبر انتہا پسندوں کا ایک منظم گروو موجود ہے۔

خود پولیس نے بھی کہا کہ یہ گرفتاریاں تو بس ایک چھوٹی سی پیشرفت ہیں جبکہ ان کارروائیوں میں دیگر بہت سے افراد بھی ملوث ہیں۔ نیز یہ سب گرفتاریاں کرناٹک، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش اور آسام سے ہوئیں، جہاں بھارت کی وفاقی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدر ہے۔

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ حکمران جماعت کے آئی ٹی سیل میں تقریباً 20,000 کارکن کام کرتے ہیں، جو بالخصوص سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا سائبر سسٹم بنا رکھا ہے، جو ملک میں نفرت کا ماحول گرم کرنے میں ہر وقت مستعد رہتا ہے۔

اگرچہ  متعلقہ حکام نے شکایت کے بعد ان دونوں ایپس کو فوری طور پر ناکارہ بنا دیا لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی جو سبکی ہونا تھی وہ ہو گئی۔

اقوام متحدہ کے اقلیتوں کے امور کے خصوصی مندوب ڈاکٹر فرنینڈ ڈی ویرینس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ بھارت میں اقلیتی مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف کارروائی کی جانا چاہیے اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔

دہلی ہائی کورٹ کی خواتین وکلاء کی ایک تنظیم نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھ کر اس کیس کی مقررہ مدت میں جانچ کروانے اور مجرموں کو کیفر دار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم میرا خیال ہے کہ یہ مذموم سلسلہ اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب حکمران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نفرت پر مبنی پروپیگنڈا اور ڈس انفارمیشن مہم  بند کرنے کا عزم ظاہر کرے گی، بصورت دیگر نفرت کی یہ فیکٹریاں بند نہیں ہو سکتیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید