1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی شہرحیدرآباد میں فسادات کے بعد کشیدگی

29 مارچ 2010

جنوبی بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدرآباد میں گزشتہ رات ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں مشتعل افراد نے مسجدوں اور مندروں پرحملے کئے.بدامنی کےان واقعات میں مجموعی طور پر قریب ساٹھ افراد زخمی بھی ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/MhHn
فسادات کے بعد حیدرآباد میں پیر کے روز بھی پولیس کو امن عامہ کے لئے کارروائی کرنا پڑیتصویر: AP

ہفتے کی شام شروع ہونے والے ان ہندو مسلم فسادات کے تیسرے روز حیدرآباد میں پولیس نے مشتعل مظاہرین کو قابو کرنے کے لئے آج بھی آنسو گیس استعمال کی۔ اس کے علاوہ حالات پر قابو پانے کے لئے وہاں وفاقی نیم فوجی دستوں کے ایک ہزار اہلکار بھی متعین کر دئے گئے ہیں۔

یہ فسادات حیدرآباد شہر کے موسیٰ باؤلی نامی حصے میں مذہبی جھنڈے لہرانے کے مسئلے پر شروع ہونے والے جھگڑے کے بعد پھوٹ پڑے تھے۔ اس دوران مشتعل مسلمانوں اور ہندوؤں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ اور ڈنڈوں سے حملے شروع کر دئے تھے۔

بدامنی کے ان واقعات کے دوران شہر کے ایک درجن سے زائد علاقوں میں متعدد دوکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا جبکہ مجموعی طور پر قریب ساٹھ افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔ اس پر پولیس نے بلوائیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے آنسو گیس استعمال کرنے کے علاوہ لاٹھی چارج بھی کیا تھا، مگر آج پیر تک حالات مکمل طور پر سیکیورٹی اہلکاروں کے قابو میں نہیں آئے تھے۔

ان فسادات کے پس منظر میں سلامتی امور کی ریاستی وزیرسبیتا اندرا ریڈی نے صوبائی اسمبلی کو بتایا کہ حیدرآباد میں ابھی تک کشیدگی پائی جاتی ہے مگر حالات قابو میں ہیں۔ اسی دوران ریاستی وزیر اعلیٰ روسائیا نے بھی تصدیق کی کہ شہر میں حالات بدستور کشیدہ ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے ملکی وزیر داخلہ پی چدم برم سے بھی بات چیت کی ہے۔

Indien Hyderabad
فسادات کی وجہ مذہبی جھنڈے لہرانے کے باعث شروع ہونے والا تنازعہ بناتصویر: AP

وزیر اعلیٰ روسائیا کے مطابق انہوں نے کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی، جنہوں نے آندھرا پردیش کے عوام سے اپیل کی کہ وہ کشیدگی کے باوجود پر امن رہیں۔

حیدرآباد میں مقامی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ شہر میں ان فسادات کے لئے با قاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں 86 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ہندو بھی۔ اس کے علاوہ امن عامہ کی صورت حال کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے شہر میں پانچ یا پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔

حیدرآباد میں ان مذہبی فسادات کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ریاستی اسمبلی میں ایک تحریک التواء کے ذریعے اس معاملے کو زیر بحث لانے کی کوشش کی تھی لیکن اسپیکرکرن کمار ریڈی نے اس کی اجازت نہ دی۔ مسلمانوں کی تنظیم مجلس اتحاد المسلمین کا اصرار تھا کہ اس موضوع پر ریاستی اسمبلی میں بحث ہونا چاہیے تھی۔

مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور ریاستی اسمبلی کے رکن اکبرالدین اویسی کے بقول حیدرآباد شہر کے پرانے حصے میں حالات بہت خراب ہیں اور مقامی اسکولوں کے طلبہ امتحان دینے کے لئے اپنے گھروں سے باہر بھی نہیں جا سکتے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بدامنی کے باعث امتحانات ملتوی کئے جائیں۔ حیدرآباد شہر کی مجموعی آبادی آٹھ ملین کے قریب ہے، جس میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا40 فیصد بنتا ہے۔

رپورٹ : بخت زمان

ادارت : مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید