1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچھڑے مہاجرين کے پيغامات : خوشی، غم اور اميد کے عکاس

عاصم سليم4 اپریل 2016

دبئی ميں جاری ايک نمائش ميں تصويروں اور فلموں کے ذريعے مہاجرين کے مابين’ایس ایم ایس‘ پيغامات کے تبادلے کو موضوع بناتے ہوئے ان بہت سے مسائل اور پہلوؤں پر نظر ڈالی گئی ہے، جو عموماً ذرائع ابلاغ کا حصہ نہيں بنتے۔

https://p.dw.com/p/1IP2s
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Kästle

’Syria via WhatsApp‘ يعنی’’شام ايس ايم ايس پيغامات واٹس ايپ کے ذريعے‘‘ اردن کی فوٹوگرافر تانيہ ہبجوقہ کی شارٹ فلم کا عنوان ہے۔ اس فلم ميں انہوں نے مختلف مقامات پر موجود شامی شہريوں کے وہ پيغامات شامل کيے ہيں جن کے ذريعے پناہ گزينوں کی حالت زار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ فلم در اصل يورپ کو درپيش مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں پناہ گزينوں کی حالت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہبجوقہ کی فلم متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی ميں ايک نمائش ميں دکھائی جا رہی ہے۔

مارچ سن 2011 سے جاری شامی خانہ جنگی اب تک تقريباً 270,000 افراد کی ہلاکت اور پانچ ملين افراد کے بے گھر ہونے کا سبب بن چکی ہے۔ فلم ميں خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کے تحريری پيغامات اور تصاوير شامل ہيں۔ مثال کے طور پر ايک شامی بچی پناہ کی تلاش ميں گھر سے نکلے ہوئے اپنے والد کو ايک آڈيو پيغام بھيج کر دريافت کرتی ہے، ’’ڈيڈی آپ کہاں ہيں؟‘‘ کسی پيغام ميں ايک باپ اپنی بيٹی کو ميسج کے ذريعے پھول بھيجتا ہے، تو کسی ميں کوئی بچی اپنے والد سے سفيد، سرمئی اور لال رنگ کے لباس کی فرمائش کرتی ہے۔ ايک پناہ گزين اپنی اہليہ کو پيغام بھيجتا ہے، ’’ميں تمہيں عرب دنيا سے باہر نکالنا چاہتا ہوں کيونکہ وہاں صرف شرمندگی ہے۔ ميں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہيں يہاں بہترين ماحول اور اعلیٰ معيار زندگی فراہم کروں گا اور تم يہاں عزت کے ساتھ جی پاؤ گی۔‘‘

’سيو دا چلڈرن‘ کے مطابق تقريباً ڈھائی لاکھ شامی بچے شام ميں مختلف مقامات پر زير قبضہ علاقوں ميں محصور ہيں
’سيو دا چلڈرن‘ کے مطابق تقريباً ڈھائی لاکھ شامی بچے شام ميں مختلف مقامات پر زير قبضہ علاقوں ميں محصور ہيںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Badra

فوٹوگرافر اور فلمساز تانيہ ہبجوقہ بتاتی ہيں کہ زيادہ تر پيغامات وہ ہیں، جو کئی عرصے کے جدائی کے بعد اہل خانہ نے ایک دوسرے کو لکھے ہیں۔ ان کے بقول اس کی وجہ يہ ہے کہ پناہ کی تلاش ميں سفر کے دوران ان افراد کے پاس عموماً انٹرنيٹ کی سہولت ميسر نہيں ہوتی۔ انہوں نے بتايا، ’’زيادہ تر ماؤں اور بچوں کے ليے سب سے خوف زدہ تجربہ يا وقت وہ خاموشی ہوتی ہے، جو ان کے اہل خانہ کے ترکی سے يونان تک کے سفر کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ تانيہ ہبجوقہ کے بقول اکثر اوقات فرار ہونے والے کئی دن تک اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے اور انہيں خيريت کی اطلاع دينے سے قاصر رہتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ واٹس ايپ کے پيغامات کی مدد سے وہ يہ سمجھ پائيں کہ متاثرہ افراد کو خاندانوں پر کيا گزرتی ہے۔

دبئی ميں جاری ’’?If I leave, where will I go‘‘ نامی نمائش ميں شامل ايک تصوير ميں ايک عورت، بڑی خوبصورتی سے سجی کھانے کی ايک ميز پر بيٹھی دکھائی ديتی ہے اور ایک بيرا انتہائی با تہزيب انداز ميں اسے پليٹ ميں کھانے کے ليے گھاس لا کر ديتا ہے۔ تصوير کے نيچے لکھا ہے، ’’گھاس کے علاوہ کچھ دستياب نہيں۔ ميں اسے نگل نہيں سکی ليکن ميں نے اپنے بچوں کے سامنے اسے زبردستی کھايا تاکہ وہ اسے کھانے کے طور پر تسليم کر سکيں۔‘‘ بچوں کی فلاح کے ليے سرگرم ادارے ’سيو دا چلڈرن‘ کی ايک حاليہ رپورٹ کے مطابق تقريباً ڈھائی لاکھ شامی بچے شام ميں مختلف مقامات پر زير قبضہ علاقوں ميں محصور ہيں اور ان کے پاس کھانے پينے کے ليے گھاس يا جانوروں کی خوراک کے علاوہ کچھ نہيں۔