1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوکو حرام: نائجیریا کے شدت پسند مسلمانوں کا گروہ

22 جون 2011

افریقی ملک نائجیریا کے مختلف صوبوں میں کمزور حکومتی عمل کے ساتھ ساتھ معاشرنی ناہمواری اور غربت کی وجہ سے اقتصادی طور پر کم آسودہ حال مسلمانوں میں مذہبی شدت پسندی گھر کرتی جا رہی ہے۔ بوکو حرام ایسے مسلمانوں کا گروپ ہے۔

https://p.dw.com/p/11hjL
تصویر: AP

نائجیریا کے انتہائی شمال مشرق میں انتہاپسند سوچ کے حامل فرقے بوکو حرام کے نزدیک مغربی اقدار، سوچ، فکر اور تعلیم حرام ہے۔ ہاؤسا زبان میں بوکو حرام کا بھی یہی مطلب نکلتا ہے۔ اب یہ فرقہ روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردانہ اور مسلح کارروائیوں میں مصروف ہے۔ پچھلی جمعرات کے روز کنکرا نامی قصبہ میں وقوع پذیر ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم کے گوریلوں پر عائد کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ نائجیریا کےخفیہ اداروں کو یقین ہے کہ اس انتہاپسند تنظیم کے کئی اراکین کے شورش زدہ افریقی ملک صومالیہ اور نائجر کے سرحدی مقامات پر سرگرم انتہاپسندوں سےقریبی رابطے ہیں۔ بوکو حرام کے نچلی سطح کے گوریلوں کی تربیت کے حوالے سے تنظیم کی جانب سے ایک خط بھی اخبارات کو جاری کیا گیا تھا، اس میں یہ تربیت صومالی انتہا پسندوں سے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

۔
ٰنائجیریا کے مسلمانوں میں احساس کمتری پایا جاتا ہےتصویر: AP

بوکو حرام انتہاپسند تنظیم کی کارروائیوں پر گہری نگاہ رکھی جا رہی ہے۔ اس شدت پسندانہ اپروچ کی وجہ سے اس کے آبائی شہر میدوگوری میں ساری آبادی منقسم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس انتہاپسند تنظیم کے بانی اور خود ساخنہ اسلامی سکالر محمد یوسف سن 2009 کے مذہبی ہنگاموں کے دوران سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان کی مسجد بھی سکیورٹی فورسز کے ایکشن کے دوران مسمار ہو گئی تھی۔ خفیہ اداروں کو اس کا بھی یقین ہے کہ تنظیم میں شامل انتہاپسند رجحان کے حامل افراد کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ بوکو حرام تنظیم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں ایک مضبوط کمانڈ کا ڈھانچہ موجود ہے۔

Nigeria mehr als 500 Menschen bei religiösen Unruhen getötet
بوکو حرام پر مسلح دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا شبہ کیا جاتا ہےتصویر: AP

حکام کے مطابق نائجیریا کے معاشرے میں پائی جانے والی بےچینی نے انتہاپسندی کو فروغ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ناقدین کے خیال میں ایک ناکام نظام تعلیم اور بڑھتی شرح بے روزگاری نے انتہاپسندوں کا کام آسان کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمزور نگرانی والے سرحدی مقامات پر غیر قانونی اسلحے کی فراہمی بھی اہم ہے۔ مسلمان آبادی والے علاقوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ نائجیریا میں ملکی وسائل کا کثیر حصہ مسیحی علاقوں میں ترقی و شادمانی کے حصول کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے اور مسلمان علاقے مسلسل نظر انداز ہیں۔

بوکو حرام کی پر تشدد کارروائیوں میں نچلی سطح کے مسلح جنگ جو پولیس اسٹیشنوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ مسلح انتہاپسند اعتدال پسند مسلمان مذہبی علما تک کو نہیں بخش رہے اور ان کی زندگیوں کے بھی درپے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے عمل میں مختلف آبادیوں کے روایتی سرداروں کو بھی موقع ملنے پر نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بوکو حرام کی سرگرمیاں حکومت اور سیاستدانوں کی سوئی ہوئی اپروچ کو جگانے کا ایک الارم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر نائجیریا میں معاشرتی اور اقتصادی رویوں میں انقلابی تبدیلیاں نہ پیدا کی گئیں توانتہائی شمال مشرق سے اٹھنے والی یہ پرتشدد تحریک سارے ملک میں انتشار اور لاقانونیت کے فروغ کا باعث بنے گی۔

رپورٹ : عابد حسین

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں