1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بول کے لب آزاد ہیں تیرے

رپورٹ: کشور مصطفیٰ ، ادارت : شامل شمس3 مئی 2009

تین مئی کو دنیا بھر میں صحافتی آزادی کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈائچے ویلے اردو سروس کا ایک خصوصی مضمون۔

https://p.dw.com/p/Hizl
صحافتی آزادی کی علم بردار تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کا نشان

آزادئی رائے کا حق آسانی سے حاصل نہیں ہوتا۔ صحافیوں اور شہریرں کے بنیادی حقوق کے سرگرم اگر جان جوکھوں میں ڈال کر اس حق کے حصول کی جدو جہد نا کریں تو غیر جمہوری معاشروں میں سب سے پہلا قتل آزادئی صحافت کے تصور کا ہوتا ہے۔ گرفتاریاں، دھمکیاں،مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات، دشمنیاں اور انتقام عموماٍ یہ ہے انعام زبان کھولنے اور قلم اٹھانے کا۔

Bedrohte Pressefreiheit
دنیا بھر میں سینکڑوں صحافی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیںتصویر: AP


ان زیادتیوں کی شکار یوگینڈا کے ایک صحافی Andrew Mwenda نے ڈوئچے ویلے کے ایک اہلکار Helle Jeppesen کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ان کے خلاف 21 مختلف واقعات میں کیسز بنائے گئے اور اگران کے مطابق انھیں سزا ہوتی تو انھیں 105 سال کے لئے جیل میں رہنا پڑتا اور اس طرح جب وہ جیل سے چھٹ کر باہر آتے تو ان کی عمر 141 سال ہوتی۔

موینڈا ایک تنقیدی صحافی ہیں اور یہ یوگینڈا میں "دی انڈیپندنٹ" کے نام سے دو ہفت روزہ جریدہ نکالتے ہیں۔ انہیں متعدد بار گرفتار کیا گیا۔ آخری دفعہ گزشتہ سال 2008 میں اپریل کے ماہ میں انہیں اور ان کے دو ساتھیوں کو یوگینڈا کے سلامتی کے اداروں کے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا اور ان کے دفتر کی تلاشی لی گئی تھی۔ ان پر یوگینڈا کے باشندوں کو ورغلانے اور حکومت دشمن جذبات کو ہوا دینے کی کوششوں جیسے الزامات عائد ہیں۔

Demonstration für Pressefreiheit Venezuela
تصویر: AP


2005 میں سوڈانی نائب صدر جان گارانگ کے ہیلی کاپٹر کے گرجانے کے واقعے کے بارے میں میونڈا نے ریڈیو پر اس حادثے کی وجوہات سے متعلق کچھ قیاس آرائیاں کی تھیں اور سوڈانی صدر کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا موقف ہے کہ ایک مخلص دوست ہی اپنے دوست کو اس کی کمزوریوں کے بارے میں بتاتا ہے۔ ان کے بقول ایک صحافی اور ناشر ہونے کے ناطے ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت کو اس کی زمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہیں اور اس کی کوتاہیوں کا احساس دلائیں۔

وہ خود کو یوگینڈا کی حکومت کا مخلص دوست سمجھتے ہیں کیوں کہ ایک دوست ہی دوسرے دوست کو اسکی کوتاہیوں اور غلطیوں پر مبنی حقائق سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ چاہے حقیقیت تلخ ہی کیوں نا ہو۔

میونڈا یوگینڈا حکومت کے ساتھ ساتھ بر اعظم افریقہ کے دیگر ممالک کی سرکاروں اور تیسری دنیا کو امداد دینے والے امیر کبیر ڈونر ممالک کے کردار پر بھی قلم اٹھاتے ہیں۔ انھوں نے بدعنوان حکومتوں اور حکمرانوں کو مغربی ممالک خاص طور سے ڈونر ملکوں کی طرف سے حاصل پشت پناہی پر بھی بارہا کھل کے تنقید کی ہے جس کے سبب انہیں بہت سے ممالک میں نا پسند کیا جانے لگا۔

Andrew Mwenda کا کہنا ہے کہ یوگینڈا کی حکومت میں افریفہ کی دیگر حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ رواداری پائی جاتی ہے ، خاص طور سے جب کسی موضوع پر کھل کر مباحثے کا معاملہ ہو۔ دوسرے یہ کہ یوگینڈا میں ایک ایسا معاشرتی ماحول بن چکا ہے کہ اگر حکومت میڈیا کو دبانے کی کوشش بھی کرے تو اسے عوامی مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ میونڈا اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کا اصل مقصد اپنے تمام ہم وطنوں کو آزاد فضا میں جینے کا حق دلانا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ گرچہ آزادئی صحافت تمام عوام کے مفاد میں ہے تاہم یہ جن قربانیوں کی متقاضی ہے وہ بہت کم صحافی دینا چاہتے ہیں۔

Andrew Mwenda نے اپنے جریدے Independent میں چھپنے والے آرٹیکل میں تحریر کیا ہے کہ ان کی اور انکے ساتھیوں کی آزادئی صحافت کی تحریک جاری رہے گی۔