1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بولنے کی صلاحیت پیدا کرنے والے جنین کی چوہوں میں منتقلی

رپورٹ: افسر اعوان، ادارت: مقبول ملک27 جون 2009

سن دو ہزار چھ میں ریلیز ہونے والی انگریزی فلم ڈاکٹر ڈو لٹل تھری میں جانوروں کو بولتے ہوئے دکھایا گیا تھا، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جانور بھی بات چیت کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/IcAa
جینز کی منتقلی کے بعد پیدا ہونے والے نومولود چوہے عام چوہوں کے بچوں کے مقابلے میں مختلف آوازیں نکالتے ہیںتصویر: AP

جرمنی کے میکس پلانک انسٹیوٹ فار ایوولوشنری اینتھروپولوجی (Max-Planck Institute for Evolutionary Anthropology) میں سائنسدانوں نے انسان میں بولنے کی صلاحیت پیدا کرنے والے جینز کو چوہوں میں منتقل کرنے کے تجربات کئے ہیں۔ اس تحقیق کا مقصد ان جینز کی وجہ سے چوہوں کے دماغ میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا تھا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ انسانوں اور دیگر ممالیہ جانوروں میں آواز میں تبدیلی کے ذریعے بامعنی الفاظ کی ادائیگی کے عمل میں کیا فرق ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جینز کی منتقلی کے بعد پیدا ہونے والے نومولود چوہے عام چوہوں کے بچوں کے مقابلے میں مختلف آوازیں نکالتے ہیں۔ اس تحقیق کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس کا یہ مطلب قطعاﹰ نہیں ہے کہ چوہے کے بچے باقاعدہ بول سکتے ہیں یا کچھ عرصے کے بعد بولنے کے قابل ہوجائیں گے۔

انسانی ارتقائی عمل کا مطالعہ کرنے والے ادارے کے سائنسدانوں کے مطابق اس تحقیق کا مقصد بولنے والے چوہے پیدا کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان تجربات کے ذریعے انسانوں میں ان طبی مسائل کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جن کی وجہ سے بعض لوگوں کو بولنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محققین کے مطابق چوہے تو شائد کبھی نہیں بول پائیں گے مگر ان تجربات سےیہ پتہ چلنے کی توقع ہے کہ انسانوں کے بولنےمیں دشواری کی صورت میں جینیاتی عوامل کا بھی کوئی عمل دخل ہوتا ہے یا نہیں، اور اگر ہوتا ہے تو اسے کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔

میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ایوولُوشنری اینتھروپولوجی کے محقق وولف گانگ اینارڈ (Wolfgang Enard) کے مطابق اس تحقیق کے ذریعے انہیں اندازہ ہوا ہے کہ چوہوں کو صرف انسانی بیماریوں سے متعلق تحقیق کے لئے ہی نہیں بلکہ انسانی ارتقائی مراحل کے مطالعے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک عشرے کے دوران ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چوہوں اور انسانوں کے طبی خواص میں بہت مماثلت موجود ہے۔ خاص طور پر دونوں کے جینز اور ان کے کام کرنے کا طریقہ کم وبیش ایک ہی جیسا ہے۔

انسانوں میں بولنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں سینکڑوں جینز کا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن تقریباﹰ دس برس قبل لندن میں رہنے والے ایک خاندان کے افراد پر جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کو بولنے میں درپیش مسائل کی وجہ FOXP2 نامی جین تھا۔ اس خاندان کے تمام افراد کو الفاظ کی ادائیگی اور گرامر کی سمجھ بُوجھ کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا تھا۔

جرمن شہر لائیپزگ میں قائم میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے اس ذیلی ادارے کے سائنسدانوں نے اس مخصوص انسانی جین کو چوہوں کے تین سو ایمبریوز یعنی بارآور انڈوں میں داخل کیا۔ نتیجتاﹰ جب چوہوں کے FOXP2 نامی جین کے حامل بچے پیدا ہوئے تو ان کے دماغ میں ایسی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جنہیں صرف انسانوں میں بولنے کی صلاحیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس تجربے سے پیدا ہونے والے چوہے ایسی آوازیں نکالتے ہیں جو عام چوہے نہیں نکال پاتے۔ جرمن سائنسدانوں کو توقع ہے کہ ان تجربات کی بدولت وہ بہت جلد انسانوں میں ان جینیاتی وجوہات کا پتہ لگا سکیں گے جو بولنے میں دشواری کی وجہ بنتی ہیں۔