بنگلہ دیش میں انتخابی رائے دہی شروع ہو گئی
29 دسمبر 2008یہ الیکشن بنگلہ دیش میں 2001 کے بعد اب تک کے پہلے عام انتخابات ہیں جن کے آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی انتخابی مبصرین بھی وہاں موجود ہیں۔
140ملین سے زائد کی آبادی والے جنوبی ایشیا کے اس ملک میں آج 29 دسمبر کے قومی پارلیمانی الیکشن کے نتیجے میں ایک ایسی اکثریتی لیکن منتخب حکومت کے قیام کی توقع کی جارہی ہے جس کے اقتدار میں آتے ہی بنگلہ دیش میں قریب دو سال تک جاری رہنے والی ہنگامی حالت کے بعد جمہوریت مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔
ان انتخابات میں شامل دونوں بڑی جماعتوں میں سےعوامی لیگ کی قیادت شیخ حسینہ کے پاس ہے اوربنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی BNP کی سربراہی بیگم خالدہ ضیاءکررہی ہیں۔
یہ دونوں خواتین سالہا سال سے ایک دوسرے کی سب سے بڑی سیاسی حریف بھی ہیں اور ماضی میں اس طرح وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر بھی فائز رہ چکی ہیں کہ ان میں سے ایک اگر حکومتی سربراہ کے فرائض انجام دے رہی تھی تو دوسری رہنما اپوزیشن کی قیادت کررہی تھی۔
بنگلہ دیش میں اگرچہ ماضی میں انتخابی عمل ہمیشہ ہی بہت پرامن نہیں رہا تاہم عبوری حکومت نے پیر کے روز ہونے والی رائے دہی کوخاص طورپر پرامن رکھنےکے لئے غیرمعمولی سیکیورٹی اقدامات کئے ہیں۔
پورے ملک میں 50 ہزار مسلح دستے، 75 ہزارپولیس اہلکار اور فوری کارروائی کرسکنے والی مسلح بٹالیئن نے چھ ہزاراہلکاروں کو بھی متعین کیا گیا ہے۔
انتخابی رائے دہی سے ایک روز قبل فوج کی حمایت والی اور عنقریب اقتدار سے علیحدہ ہوجانے والی عبوری حکومت کے سربراہ فخرالدین احمد نے الیکٹرانک میڈیا پر اپنے ایک خطاب میں عام ووٹروں اور سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ انتخابات میں پرسکون رہتے ہوئے حصہ لیں اور اس جمہوری عمل کی تکمیل پر جو بھی نتائج سامنے آئیں انہیں خوشی سے قبول کریں۔
بنگلہ دیش میں کل 81 ملین رائے دہندگان اس الیکشن میں ڈھاکہ کی قومی پارلیمان کے 300 نئےارکان کا چناؤ کررہے ہیں۔