1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بل کلنٹن کا دَورہء شمالی کوریا، فائدہ کسے ہوا

5 اگست 2009

شمالی کوریا نے مارچ میں گرفتار کی گئی دونوں امریکی صحافی خواتین کو رہا کر دیا ہے، جنہیں آج سابق امریکی صدر بل کلنٹن اپنے ہمراہ لے کر واپس امریکہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس حوالے سے پیٹر کویاتھ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/J44g
بل کنلٹن کا دورہ شمالی کوریا کامیاب رہاتصویر: AP / DW Montage

شمالی کوریائی سربراہِ مملکت کم ژونگ اِل نے کلنٹن کے ساتھ ایک ملاقات میں اِن خواتین کو معافی دینے کا اعلان کیا۔ ٹوکیو سے ہمارے ساتھی پیٹر کویاتھ کے مطابق اِن صحافیوں کی رہائی کلنٹن کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کی قیادت کے لئے بھی ایک کامیابی کی حیثیت رکھتی ہے۔

جو کچھ ہوا، اُس کا فائدہ کسے اور کیسے ہوا، یہ بات تو کچھ وقت گذرنے کے بعد ہی زیادہ یقینی طور پر کہی جا سکے گی، اتنی بات البتہ یقینی ہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا دَورہء شمالی کوریا نہ صرف غیر متوقع تھا بلکہ کامیاب بھی رہا۔ بل کلنٹن امریکی صحافی خواتین کو رہا کروانے میں کامیاب ہوئے، یہ اور بات ہے کہ مطلق العنان کمیونسٹ ریاست کوکبھی بھی اِن دونوں خواتین سے مشقت کروانے میں حقیقی دلچسپی نہیں تھی۔

شمالی کوریا کو پتہ تھا کہ اِن خواتین کو تبادلے یا ضمانت کے طور پر استعمال کرنا اُس کے لئے کہیں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گا کیونکہ موجودہ امریکی وزیرِ خارجہ کے شوہر کے دَورے سےپیانگ یانگ اُس صورتِ حال کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا، جس میں وہ دُنیا بھر سے کٹ کر رہ گیا تھا۔

Nordkorea USA Geiseln frei Flughafen von Pyongyang Bill Clinton
دونوں خواتین صحافی سابق امریکی صدر کے ہمراہ امریکہ روانہ ہو گئیںتصویر: AP

شمالی کوریا اور بین الاقو امی برادری کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حالات اکثر آخری حد تک پہنچ گئے تھے، جیسا کہ مئی کے اواخر میں دوسرے ایٹمی تجربے کے سلسلے میں ہوا لیکن پھر کچھ مخصوص حالات کے باعث ہمیشہ ایک بار پھر مذاکرات ممکن ہو جاتے تھے۔ 1994ء میں بھی یہی ہوا، جب سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اِس کمیونسٹ ملک کا دَورہ کیا یا پھر 2003ء میں، جب چھ فریقی مذاکرات کی صورت میں بات چیت کی ایک نئی شکل دریافت کی گئی۔

اِس بار بل کلنٹن کے دَورے سے تعطل کی شکار صورتحال کو آگے بڑھانے میں مدد ملی۔ ایسے میں یہ بات غیر اہم تھی کہ وہ واقعی موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کا کوئی زبانی پیغام لے کر گئے یا نہیں۔ اِس دورے سے شمالی کوریا کی حکومت کو ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اِس کمیونسٹ ریاست کو سنجیدگی سے لیا گیا۔

اگر امریکہ نہیں چاہتا کہ شمالی کوریا ابتری کا شکار ہو جائے اور اُس کی ابتلا کی شکار آبادی اور پورے خطے کے لئے حالات ناقابلِ برداشت ہو جائیں تو پھر اُس کے پاس شمالی کوریا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات شروع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

شمالی کوریا نے اب تک دباؤ کا جواب ہمیشہ جوابی دباؤ یعنی ایٹمی پروگرام میں توسیع اور اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میرائلوں کو مزید ترقی دیتے ہوئے دیا ہے۔ بات چیت سے، چاہے وہ کسی بھی دائرے میں ہو، یہ جاننے کا موقع بہرحال مل جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے اقدامات کے محرکات کیا ہیں اور وہاں کے اصل حالات کیا ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بات چیت تو 1994ء سے ہی کسی نہ کسی سطح پر ہو رہی ہے لیکن اُس کے کوئی ٹھوس نتائج ابھی تک برآمد نہیں ہوئے۔ شمالی کوریا پہلے کی طرح اب بھی ایک ایسا ملک ہے، جو باقی دُنیا سے کٹا ہوا ہے، جو ممکنہ طور پر ایٹمی اسلحے سے لیس ہے اور جس کے عوام کو ملنے والی خوراک ناکافی ہے۔

اپنے اِس دورے سے بل کلنٹن نے مطلق العنان حکمران کم ژونگ اِل کی پوزیشن بھی مضبوط کی ہے۔ کم کی صحت نمایاں طور پر خراب ہو چکی ہے، جس سے اقتدار پر گرفت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ اگر کم ژونگ اِل اقتدار اپنے ہی خاندان میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو منتقل کرنا چاہتے ہیں تو پھر اُنہیں ویسے اہم نتائج کی ضرورت ہے، جو مثلاً میزائلوں کے تجربات یا پھر ایٹم بم کے تجربے کی صورت میں سامنے آئے۔ ایک ایسے وقت میں، جب شمالی کوریا میں قیادت عنقریب تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے، بہتر یہی ہے کہ اِس ملک کے ساتھ کشیدگی کی بجائے مکالمت کی راہ اختیار کی جائے۔

تبصرہ : پیٹر کویاتھ / امجد علی

ادارت : کشور مصطفیٰ