1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشارالاسد کے کئی چہرے

7 دسمبر 2011

شامی صدر بشار الاسد نے جب حکومت سنبھالی تھی تو اسے شام ميں ايک نيا آغاز اور اصلاحات کی نويد سمجھا گيا تھا۔ ليکن اب وہ ايک آمر ہيں اور ملک ميں احتجاجی لہر کو وحشيانہ طاقت کے ذريعے کچل رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/13OAx
تصویر: picture-alliance/abaca

بشار الاسد نے جب 11 سال قبل لندن ميں امراض چشم کے ڈاکٹر کی حيثيت سے اپنی تعليم ابھی مکمل ہی کی تھی، تو اُس وقت اُنہيں ميدان سياست ميں نا تجربہ کار سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے لندن ہی ميں شام سے تعلق رکھنے والی ايک خاتون بينکار اسماء سے شادی بھی کر لی تھی۔ ليکن اپنے بھائی کی حادثاتی موت کے نتيجے ميں اُنہيں اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ حکومت سنبھالنا پڑی تھی۔

بشار الاسد نے شروع ميں اصلاحات کے جو وعدے کيے تھے، اُنہيں پورا نہيں کيا گيا۔ اُنہوں نے اپنے والد کے پرانے ٹولے کے سامنے گھٹنے ٹيک دیے۔ اس کے باوجود بشار الاسد کو مشرق وسطٰی ميں لمبے عرصے تک اميد کی کرن سمجھا جاتا رہا۔ انہوں نے عراق کے خلا ف جنگ اور غزہ پر اسرائيلی حملے کی مخالفت کی اور ايک امريکی سروے کے مطابق وہ مقبول ترين عرب رہنما کے درجے تک پہنچ گئے تھے۔

شام ميں ايک مظاہرہ
شام ميں ايک مظاہرہتصویر: AP

اس کے بعد تيونس ميں بن علی اور مصر ميں حسنی مبارک کی حکومتوں کا خاتمہ ہو گيا۔ پھر بھی اسد اپنی حکومت کو بہت مضبوط سمجھتے رہے۔ ليکن سماجی بد حالی اور ہر جگہ پھيلا ہوا نگرانی اور جبر کا نظام اُن کے ليے ايک خطرہ بن گيا۔ شامی عوام مارچ سے لے کراب تک تقريباً روزانہ ہی اسد کو حکومت سے ہٹانے کے ليے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہيں۔ اب تک اس کے ليے 4000 افراد اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہيں اور ہزاروں جيلوں ميں بند ہيں۔

مظاہروں سے کچھ قبل تک بھی ايران، حزب اللہ اور حماس کے حامی کے طور پر شام کی تنہائی ختم ہو رہی تھی۔ مغربی ممالک شام کو مشرق وسطٰی ميں امن کی کنجی سمجھنے لگے تھے۔ روانی سے انگلش بولنے والے اسمارٹ بشار الاسد تب خود کو دنيا ميں ايک پسنديدہ سفارتکار سمجھ رہے تھے۔

ليکن مارچ سے صورتحال يکسر تبديل ہو چکی ہے۔ اسد اپنے عوام کے خلاف فوج استعمال کر رہے ہيں۔ اپوزيشن کے اسامہ مجاجد کو اس پر حيرت نہيں ہے: ’’بہت سوں نے اسد کو اصلاحات پسند سمجھا تھا، مغربی سياستدانوں نے بھی، ليکن درحقيقت اُن کی اصلاحات گولياں اور مشين گنيں ہيں۔‘‘

شام کی صورتحال پر عرب ليگ کا اجلاس، جس ميں ترکی بھی شريک ہوا
شام کی صورتحال پر عرب ليگ کا اجلاس، جس ميں ترکی بھی شريک ہواتصویر: dapd

بشار الاسد کا تعلق جس علوی اقليت سے ہے، شامی فوج، رياست اور خفيہ ادارے اُس کے کنٹرول ميں ہيں اور عوامی انقلاب کو پوری قوت سے کچلا جا رہا ہے۔ اسد کے مخالفين اب صرف ان کی حکومت کا خاتمہ ہی نہيں بلکہ انہيں پھانسی کے تختے پر بھی ديکھنا چاہتے ہيں۔

ر

پورٹ: اُلرش لائڈ ہولٹ، عمان / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں