1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ کے حامی جانسن، وزرت عظمیٰ کی امیدواری سے الگ

افسر اعوان30 جون 2016

لندن کے سابق میئر بورس جانسن نے کہا ہے کہ وہ رخصت ہونے والے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانشینی کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ جانسن ا‌ُن سیاستدانوں میں شامل تھے، جنہوں نے بریگزٹ مہم کی قیادت کی تھی۔

https://p.dw.com/p/1JGvj
بورس جانسنتصویر: Reuters/T. Melville

کنزرویٹیو پارٹی سے تعلق رکھنے والے بورس جانسن نے 23 جون کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے لیے یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی مہم کی قیادت کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد اُنہیں کڑی تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم مضبوط خیال یہی تھا کہ وہ ڈیوڈ کیمرون کے بعد ملکی وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بورس جانسن کی طرف سے وزارت عظمیٰ کی امیدواری سے دستبرداری کے اعلان کو بریگزٹ کے حق میں ووٹنگ کے ردعمل میں ڈیوڈ کیمرون کے استعفیٰ کے بعد سب سے بڑی حیرت انگیز سیاسی خبر قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعرات 23 جون کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد ڈیوڈ کیمرون نے جمعہ 24 جون کو اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اکتوبر کے آخر تک کاروبار حکومت چلاتے رہیں گے۔

Großbritannien Theresa May
تھریسا مےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain

بورس جانسن کے اس اعلان کے بعد اب کیمرون کے جانشین کے طور پر خاتون وزیر داخلہ تھیریسا مے یا پھر وزیر انصاف مائیکل گوو کی تقرری کے امکانات زیادہ روشن بتائے جا رہے ہیں۔ تاہم روئٹرز کے جائزے کے مطابق مطابق یورپی یونین میں شامل رہنے کی حامی وزیر داخلہ تھیریسا مے کیمرون کی جانشین کے طور پر زیادہ فیورٹ ہوں گی۔

انہوں نے اپنی امیدواری کا اعلان آج جمعرات ہی کے روز قبل ازیں اس وعدے کے ساتھ کیا تھا کہ وہ عوامی امنگوں کے مطابق یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے عمل کو خوش اسلوبی سے تکمیل تک پہنچائیں گی۔ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تھیریسا مے کا کہنا تھا، ’’بریگزٹ کا مطلب ہے بریگزٹ‘‘۔ ان کا کہنا تھا، ’’مہم چلائی جا چکی، ووٹ ڈالے جا چکے، ووٹوں کا ٹرن آؤٹ بھی کافی زیادہ تھا اور لوگوں نے اپنا فیصلہ دے دیا۔ اب یورپی یونین میں رہنے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہیے، نہ ہی پیچھے کے کسی راستے سے اس میں دوبارہ شامل ہونے کی یا دوبارہ ریفرنڈم کی کوئی ضرورت ہےے۔‘‘

بورس جانسن نے لندن کے ایک لگژری ہوٹل میں اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ساتھیوں سے مشورے اور پارلیمان کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وزیر اعظم وہ نہیں ہو سکتے۔