1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بریگزٹ مہاجرین کے بحران کو مزید پیچیدہ بنا دے گا‘

عاصم سليم / Carassava, Anthee8 مئی 2016

يونان کے نائب وزير دفاع اور مہاجرين سے نمٹنے والے محکمے کے سربراہ ديميتريس وٹساس نے ڈی ڈبليو کو ديے اپنے خصوصی انٹرويو ميں خبردار کيا ہے کہ برطانيہ کا يورپی يونين سے ممکنہ اخراج مہاجرين کے بحران کو مزيد پیچیدہ بنا دے گا۔

https://p.dw.com/p/1IjuO
تصویر: DW/D. Tosidis

يونانی نائب وزير دفاع کے مطابق پناہ گزينوں کی يورپ آمد روکنے کے ليے ترکی کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے ميں يورپ کو قريب ايک سال لگا ہے اور اب اس موقع پر برطانيہ کا يورپی يونين سے ممکنہ اخراج کسی بڑے دھچکے سے کم نہ ہو گا۔ اس ممکنہ پيش رفت کے نتيجے ميں مہاجرين کے بحران سے نمٹنے کی يورپ کی جامع اور موبوط کوششيں ہی نہيں متاثر ہوں گی بلکہ اس کی وجہ سے کئی رياستوں کو اس مسئلے سے انفرادی طور پر نمٹنے يا پھر سرے سے ہی نہ نمٹنے کا اندیشہ ہے۔ ديميتريس وٹساس نے اپنا انتباہی پيغام ڈی ڈبليو کے ساتھ ايک خصوصی انٹرويو ميں ديا۔

اس يونانی اعلیٰ عہديدار نے مزيد کہا ہے کہ برطانيہ کے يورپی يونين سے ممکنہ اخراج، جسے ’بريگزٹ‘ بھی کہا جاتا ہے، سے يورپی سطح پر امدادی رقوم جمع کرنے کا عمل بھی متاثر ہو گا۔ بلقان خطے سے گزرنے والے مہاجرين کے مرکزی روٹ کی بندش کے حوالے سے يورپی يونين اور ترکی کے مابين مارچ ميں طے پانے والی ڈيل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پيش رفت کے سبب ترکی کو دی جانے والی رقوم ميں کمی پڑ سکتی ہے۔ وٹساس نے کہا، ’’يہ معاہدہ اب بھی اپنے ابتدائی دور سے گزر رہا ہے۔ اب بھی کئی معاملات طے ہونا باقی ہيں ليکن حقيقت يہ ہے کہ اس وقت اس سے بہتر کوئی متبادل حل بھی نہيں۔‘‘

يہ امر اہم ہے کہ اٹھارہ مارچ کو طے پانے والے معاہدے کے تحت ترکی سے بحيرہ ايجيئن کے راستے يونان پہنچنے والے ایسے تمام پناہ گزينوں کو واپس ترکی بھيجا جانا ہے، جو بنیادی شرائط پوری نہیں کرتے۔ يورپی يونين واپس بھيجے جانے والے ہر تارک وطن کے بدلے ترکی ميں مہاجر کيمپوں ميں موجود ايک پناہ گزين کو يورپ ميں پناہ فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ ترکی ميں موجود قريب تين ملين شامی پناہ گزينوں کی زندگی ميں بہتری لانے کے ليے يورپی بلاک کی جانب سے انقرہ کو قريب چھ بلين يورو بھی فراہم کيے جانا ہيں۔

يونان کے نائب وزير دفاع اور مہاجرين سے نمٹنے والے محکمے کے سربراہ ديميتريس وٹساس
يونان کے نائب وزير دفاع اور مہاجرين سے نمٹنے والے محکمے کے سربراہ ديميتريس وٹساستصویر: picture alliance/NurPhoto/W. Aswestopoulos

اس منصوبے پر عملدرآمد کے آغاز سے بحيرہ ايجيئن کے راستے ہونے والی غير قانونی ہجرت ميں نماياں کمی رونما ہوئی ہے۔ ايک وقت ہر ہفتے تقريباً دو ہزار پناہ گزين يونانی جزائر پر پہنچ رہے تھے جبکہ گزشتہ ہفتے صرف ستاسی تارک وطن يونان پہنچے۔ تاہم اسی دوران ملک بدريوں کی اسکيم ذرا سست روی کا شکار ہے اور مہينوں سے يونانی کيمپوں ميں زير حراست پناہ گزينوں کی بے چينی ميں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تارکين وطن اور حکام کے مابين تصادم کی رپورٹيں بھی عام ہيں۔ ادھر مبينہ طور پر صدر رجب طيب ايردوآن کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے وزير اعظم احمد داؤد اولُو کے استعفے کے اعلان کے نتيجے ميں ترکی کی داخلی سياست افراتفری کا شکار ہے اور يہ واضح نہيں کہ معاہدے کا مستقبل کيا ہو گا۔

يونان کے نائب وزير دفاع اور مہاجرين سے نمٹنے سے متعلق محکمے کے سربراہ ديميتريس وٹساس نے اپنے انٹرويو ميں سياسی پناہ سے متعلق قانوی امور کے ماہرين کی قلت پر بھی شکايات کی۔ انہوں نے کہا، ’’يہاں 158 ماہرين اور سينکڑوں مترجموں اور ديگر اشياء کو ہونا چاہيے تھا ليکن اب تک صرف پچاس ماہرين کام کر رہے ہيں اور يوميہ بنيادوں پر سياسی پناہ کی صرف پچاس درخواستوں پر کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول يہ طے شدہ رفتار سے پانچ گنا کم ہے، جس سبب اپنے ملک ميں پھنسے چون ہزار پناہ گزينوں کا بوجھ يونان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔