1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ صرف پارلیمان کی رضامندی سے ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ

24 جنوری 2017

برطانوی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق وزیراعظم ٹریزا مے تنہا یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل شروع نہیں کر سکتیں۔ انہیں اس سے پہلے ہر حال میں پارلیمان کی رضامندی حاصل کرنا ہوگی۔

https://p.dw.com/p/2WIqy
Großbritannien Karikatur zum Brexit vor dem Obersten Gericht in London
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Jones

منگل کے روز سنائے جانے والے اس عدالتی فیصلے کے مطابق وزیراعظم ٹریزا مے لزبن ٹریٹی کی شق نمبر پچاس کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل تنہا شروع نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں اس عمل سے قبل اس کی پارلیمان سے منظوری لینا ہوگی۔ تاہم سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی اسمبلیوں سے پوچھنا لازمی نہیں ہوگا۔

اس کیس کی سماعت کرنے والے گیارہ ججوں میں سے آٹھ نے پارلیمان سے منظوری کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تین ججوں نے اس کی مخالفت کی۔ تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جون میں ہونے والے ریفرنڈم کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جس میں باون فیصد شرکاء نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

London Premierministerin Theresa May bei Rede zu Brexit
وزیراعظم ٹریزا مے لزبن ٹریٹی کی شق نمبر پچاس کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل تنہا شروع نہیں کر سکتیںتصویر: picture-alliance/empics/K. Wigglesworth

دریں اثناء برطانوی وزیراعظم کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے باوجود مارچ کے اختتام پر بریگزٹ کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ عدالت نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کر دیا ہے کہ اس حوالے سے برطانوی وزیر اعظم اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کر سکتی ہیں، جنہیں "رائل استحقاق"  کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس طرح وہ لزبن ٹریٹی کے آرٹیکل نمبر پچاس کو متحرک کر سکتی ہیں۔ برطانوی حکومت آئندہ دو برس کے اندر اندر یورپی یونین سے اخراج کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے۔

یورپی رہنما برطانوی عوام کو سزا دینے کی کوشش نہ کریں، مے

برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور حکومت مارچ کے اختتام تک علیحدگی کے اس عمل کو شروع کرنا چاہتی ہے۔ آج کے عدالتی فیصلے سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔‘‘

اب برطانوی وزیراعظم کو آئندہ نو ہفتوں کے اندر اندر اس کی پارلیمان سے منظوری لینا ہو گی۔ حکومتی بیان کے مطابق ان کے پلان میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں کیا جائے گا اور تمام چیزیں ویسے ہی ہوں گی، جیسے پہلے شیڈیول کی گئی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے سے یہ ضرور ہوا ہے کہ ٹریزا مے اور ان کے مشیر پارلیمان پر توجہ مرکوز کریں گے۔

دوسری جانب برطانوی حکومت اس حوالے سے عدالت کو قائل کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ اس عمل کے آغاز کی اجازت ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی اسمبلیوں سے نہ لی جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ عمل تاخیر کا شکار ہو سکتا تھا۔