1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: آٹھ جون کے الیکشن کے لیے سیاسی جنگ میں تیزی

مقبول ملک سمیرہ شیکل
5 جون 2017

برطانیہ میں آٹھ جون کو ہونے والے پارلیمانی الیکشن کے لیے چند انتخابی حلقوں میں حریف امیدواروں کے مابین عوامی تائید کے لیے مقابلہ انتہائی سخت ہو گا اور ان حلقوں کے نتائج کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/2e8ZX
Großbritannien Kampf um Wahlkreise in London
تصویر: DW/S. Shackle

اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کے لیے لندن سے اپنی ایک رپورٹ میں سمیرہ شیکل لکھتی ہیں کہ یہ برطانوی انتخابی حلقے وہ ہیں، جنہیں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے عوامی تائید و حمایت کے بڑے اور مسلمہ شہری مراکز سے دور ایسے انتخابی حلقے قرار دیا جاتا ہے، جہاں کسی بھی طرح کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

ان پارلیمانی انتخابی حلقوں میں آٹھ جون کی عوامی رائے دہی کے ممکنہ نتائج کے بارے میں کوئی ٹھوس اندازے لگانا ابھی تک بہت مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سیاسی امیدوار اپنی اپنی کامیابی کے لیے انتخابی مہم میں ہر طرح کی کوششیں کر رہے ہیں۔

مزید حملوں کا خدشہ، برطانیہ میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ

مانچسٹر خودکش حملے سے تعلق کے شبے میں ایک گرفتار

پاکستانی نژاد برطانوی افضل خان، غیر معمولی سیاسی سفر

ان پارلیمانی حلقوں میں سے ایک ہَیمپ سٹَیڈ اور کِلبَرن کا حلقہ بھی ہے، جو شمال مغربی لندن میں واقع ہے اور جہاں سڑکوں پر انتخابی جنگ کی حدت واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس ہفتے جمعرات کے روز ہونے والے عام انتخابات میں برطانوی ووٹروں کو ملکی پارلیمان کے کل 650 حلقوں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے۔ لیکن اب تک کی سیاسی مہم کے دوران ساری توجہ ان چند حلقوں پر مرکوز ہے، جہاں معمولی فرق سے فاتح امیدواروں کو حاصل ہونے والی انتخابی برتری ملک گیر انتخابی نتائج کا رخ تبدیل کر سکتی ہے۔

Theresa May Ansprache London
قدامت پسند برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مےتصویر: picture alliance/dpa/A.Matthews

ان حالات میں حکمران قدامت پسند پارٹی، اپوزیشن کی لیبر پارٹی اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتیں اپنی توجہ ان حلقوں پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں، جن کے بارے میں انہیں امید ہے کہ وہ وہاں جیت سکتی ہیں۔ اس کے برعکس ان پارلیمانی حلقوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی، جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہاں یقینی طور پر کوئی نہ کوئی حریف جماعت ہی فتح حاصل کر لے گی۔

برطانیہ میں باصلاحیت مہاجرین کے لیے نئی زندگی شروع کرنے کا موقع

امریکا اور برطانیہ یورپ کے قابل اعتماد ساتھی نہیں رہے، میرکل

مانچسٹر حملے میں طاقتور دھماکہ خیز ڈیوائس استعمال کی گئی

برطانیہ میں ایسے ’مارجِینل‘ انتخابی حلقوں میں کامیابی کی اس جنگ کی وجوہات کو اس پس منظر میں اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ Hampstead and Kilburn میں 2010ء کے عام الیکشن میں لیبر پارٹی کی خاتون امیدوار گلَینڈا جیکسن کو کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن انہوں نے اپنے قریب ترین حریف کو صرف 42 ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی تھی۔

اسی طرح اس مقابلے میں پہلے اور تیسرے نمبر پر رہنے والے انتخابی امیدواروں کے مابین ووٹوں کا فرق محض 841 رہا تھا، جو اس علاقے میں ووٹروں کی کُل تعداد کے قریب ایک فیصد کے برابر تھا۔

Großbritannien Jeremy Corbyn
وزارت عظمیٰ کے لیے لیبر پارٹی کے امیدوار جیریمی کوربنتصویر: Getty Images/J. Taylor

لندن میں ایوان زیریں یا ہاؤس آف کامنز کے اس انتخابی حلقے کی رہنے والی ایک خاتون ووٹر اَیما ہارلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لگتا ہے میں ان سب پارٹیوں کی طرف سے تقسیم کیے جانے والے انتخابی اشتہارات اور پمفلٹس  کے سیلاب میں ڈوب جاؤں گی۔ ہر پارٹی کے امیدوار کے حامی کارکن بار بار میرے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ پہلے میں لندن کے ایک ایسے علاقے میں رہتی تھی، جہاں کامیابی ہمیشہ لیبر پارٹی کے امیدوار ہی کو ملتی تھی۔ وہاں تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اور یہاں یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔‘‘