1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی وزیرِ خارجہ کا غیر متوقع دورہ افغانستان

25 نومبر 2008

ایک طرف امریکہ افغانستان میں بیس ہزار سے زائد افواج روانہ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے تو دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ مغربی ممالک افغانستان میں جنگ بندی کے لیے ایک میعاد طے کرلیں۔

https://p.dw.com/p/G1wU
برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈتصویر: AP
Barack Obama in Afganistan
نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما افغانستان میں افواج میں اضافہ چاہتے ہیںتصویر: AP


نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محور افغانستان کو سمجھتے ہیں اور بیس جنوری دو ہزار نو کو حلف اٹھانے کے بعد وہ اس جانب توجّہ مرکوز کریں گے۔ وہ افغانستان میں مزید افواج روانہ کرنے کی بات بارہا کرچکے ہیں اور امکاناً اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں مزید بیس ہزار امریکی افواج روانہ کی جاسکتی ہیں۔ دوسری جانب عراق سے امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا فیصلہ تقریباً ہو چکا ہے مگر اس میں مزید ڈیڑھ یا دو برس لگ سکتے ہیں۔

Afghanistan Präsident Hamid Karzai während einer Pressekonferenz im Präsidentenpalast in Kabul
افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ مغربی ممالک افغانستان میں جنگ بندی کے لیے ایک میعاد طے کریںتصویر: AP


افغانستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محور بننے جا رہا ہے اور غالباً اسی واسطے افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کے روز بین الاقوامی برادری کو ایک مرتبہ پر دھمکی دی ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے سے متعلق ایک وقت طے کرلیں ورنہ ان کی حکومت طالبان سے سیاسی زریعے سے نمٹنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے قبل وہ طالبان رہنما ملا عمر کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی بات کرچکے ہیں جس کو طالبان نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ کرزئی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کوئی فیصلہ کرسکیں۔

Afghanistan ISAF Soldat Deutschland und afghanische Polizisten
افغانستان میں تعینات جرمنی فوجی عسکریت پسندوں کے تازہ حملوں کا نشانہ ہیںتصویر: AP


اسی دوران برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ افغانستان کے ایک غیر اعلانیہ دورے پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ افغان صدر سے ملاقات کر رہے ہیں۔اس کے بعد وہ مستقبل میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک اور محور پاکستان بھی جائیں گے۔ ابھی پیر کے روز ہی ایک برطانوی فوجی جنوبی افغانستان کے صوبے ہلمند میں بم دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہوگیا تھا۔ دوسری جانب نیٹو افواج میں شامل جرمن سپاہی بھی حالیہ عرصے میں متعدد بار بم دھماکوں کی زد میں آچکے ہیں اور ان میں اکثر شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔

Pakistanischer Armeechef Ashfaq Kayani
بعض مبصرین کے مطابق پاکستانی سولین اور فوجی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ پاکستان کے زریعے طالبان سے بات چیت کی جائےتصویر: AP

تو کیا مزید مغربی افواج کی افغانستان میں تعیناتی سے وہاں جاری عسکریت پسندی کا خاتمہ ہوسکے گا؟ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سولین حکومت اکثر یہ کہتی دکھائی دیتی ہے کہ فوجی طاقت کے زریعے طالبان کو کنٹرول کرنا منفی ثابت ہوگا اور اس سے دہشت گردی میں صرف اضافہ ہوگا۔ بعض مبصرین کے مطابق اس سے مراد پاکستانی سولین اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی یہ ہوتی ہے کہ پاکستان کے زریعے طالبان سے بات چیت کی جائے کیوں کہ پاکستان ہی طالبان کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ اسی واسطے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکی جاسوس طیّاروں کی پاکستان سرحد کے اندر عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر مبینہ بمباری کے خلاف ہے۔

مگر جہاں باراک اوباما کی انتظامیہ افواج میں اضافے کا ارادہ کر رہی ہے وہاں غالباً پاکستان کو نظر انداز کرکے سعودی عرب کے زریعے طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہو بھی چکا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق یہ بات پاکستان کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔