باراک اوباما کی فوری حکومتی ترجیحات
8 نومبر 2008نومنتخب امریکی صدرباراک اوباما نے اپنے سینئراقتصادی مشیروں کے ساتھ ایک ملاقات کے بعداولین پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ مالیاتی بحران کے منفی نتائج کے خلاف مئوثر اقدامات کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اورانہیں یہ احساس ہے کہ ان مسائل کو نہ توفوری طور پر حل کیا جاسکے گا اور نہ ہی یہ کام بہت آسان ہوگا، بلکہ یہ کام ایک ایسا چیلنج ہے جس کے لئے پوری توجہ اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوگی۔
سیاہ فام نومنتخب امریکی صدر نے کہا: "صدر بننے کے فوری بعد میں اس معیشی بحران کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ تمام ضروری اقدامات کروں گا جن کے ذریعے قرضوں سے متعلق اس بحران پر قابو پایاجاسکے، محنت کش خاندانوں کی مدد کی جاسکےاور معیشی ترقی اور خوشحالی بحال ہو سکے۔"
امریکی معیشت کی اس بحران سے کامیابی سے نکل سکنے کی اہلیت کے بارے میں باراک اوباما نے کہا: "یہ کام نہ تو بہت جلد ممکن ہو سکے گا اور نہ ہی یہ بہت آسان ہوگاکہ امریکی معیشت خود کو ان مشکل حالات سے نکال سکے جن کا اسے سامنا ہے۔ لیکن امریکہ ایک ایسی مضبوط معیشت ہے کہ مجھے ابھی سے علم ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے، صرف اس صورت میں کہ ہم پارٹی ہمدردیوں اور سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئےایک قوم کے طور پر مل جل کر کوشش کریں۔ یہ ہے وہ کام جو میں کرنا چاہتا ہوں۔"
اپنے انتخاب کے بعد پہلی مرتبہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے باعث واشنگٹن کے تہران کے ساتھ تنازعے کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ناقابل قبول ہوگی اور ایران کو دہشت گرد تنظیموں کی حمائت بھی بند کرنا ہوگی۔
اسی پس منظر میں ایرانی صدر کے ایک خط کے بارے میں باراک اوباما کا کہنا تھا: "میں صدر احمدی نژادکے خط کا اچھی طرح جائزہ لوں گا اور پھر ہم اس کے مطابق ہی اپنا رد عمل ظاہر کریں گے۔ ایران جیسے ملک کے بارے میں ہمارا مئوقف کیا ہوگا، ہمیں اس پر اچھی طرح غور کرنا ہوگا۔"
باراک اوباما کا کہنا تھا کہ ان کی اولین ترجیح معیشی ترقی کے لئے ایک نئے سرکاری پروگرام کی منظوری ہو گی۔ اس کے علاوہ وہ بےروزگار افراد کے لئے مالی امداد میں اضافہ کریں گے اور ٹیکسوں کی شرح میں اس طرح کمی کی جائے گی کہ متوسط طبقہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔