1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باراک اوباما کا افغانستان کا اچانک دورہ

3 دسمبر 2010

باراک اوباما نے بگرام کے فوجی اڈے پر چار گھنٹے گزارے اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے بھی ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/QPRj
تصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ افغانستان کو دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ ہر گز نہیں بننے دیا جائے گا، جو امریکہ پر حملے کر سکیں۔

باراک اوباما نے یہ بیان بگرام کی امریکی ائیر فیلڈ میں ہزاروں امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ امریکی صدر غیر اعلانیہ دورے پر جمعہ کو افغانستان پہنچے ۔ باراک اوباما نے اس موقع پر کہا کہ افغانستان مشن کامیابی سے ہمکنار ہوگا بیشک اس کے آثار آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے۔ اوباما نے اپنے فوجیوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا کہ افغانستان میں جاری غیر ملکی مشن کو ابھی مزید مشکلات کا سامنا ہوگا تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان کے خلاف جنگ میں آخر کار فتح اتحادی فوج کو ہی حاصل ہوگی۔

Obama / Afghanistan / Bagram / USA
امریکی صدر باراک اوباما بگرام ایئر بیس پرتصویر: AP

باراک اوباما نے بگرام ائیر بیس پر چار گھنٹے گزارے اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے بھی ملاقات کی۔ امریکی صدر اگرچہ اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی سے ملاقات کے لئے کابل جانا چاہتے تھے تاہم اطلاعات کے مطابق موسم کی خرابی کے سبب وہ کابل کی طرف پرواز نہ کر سکے۔ اوباما نے ٹیلی فون کے ذریعے حامد کرزئی کے ساتھ بات چیت کی۔

امریکی ذرائع کے مطابق اوباما افغانستان میں سرگرم اپنے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے غرض سے وہاں پہنچے۔ امریکی صدر اپنے ان فوجیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے، جو امریکہ میں منائے جانے والے ایک اہم تہوار ’ تھینکس گیونگ‘ پر اپنے گھر والوں سے اتنے دور ایک خطرناک مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اوباما نے کرسمس کا حوالہ دیتے ہوئے بگرام میں اپنے فوجیوں سے کہا ’میرے لئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہو سکتی تھی۔ آپ سب سے مل کر مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے‘۔

صدارتی منصب پر فائز ہونے کے بعد باراک اوباما کا افغانستان کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ اس سے قبل وہ گزشتہ مارچ میں افغانستان گئے تھے۔

مبصرین کے مطابق امریکی صدر کا یہ دورہ اس لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک طرف اوباما کو اپنے ملک میں افغانستان سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی سمیت متعدد دیگر داخلہ اور خارجہ سیاسی اسٹریٹیجی کی ضمن میں شدید مخالفتوں کا سامنا ہے اور دوسری جانب وکی لیکس انکشافات کے بعد سے دنیا بھر میں امریکی سفارتکاری کو کاری ضرب لگی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی صدر ٹھیک ایک سال قبل افغانستان میں 30 ہزار مزید امریکی فوجیوں کی افغانستان میں تعیناتی کا اعلان کر چکے ہیں تاہم اب وہ اپنی افغان پالیسی پر سنجیدگی سے نظر ثانی کر رہے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں