1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بائیو فیول: برآمد کنندگان کے لئے سرٹیفیکیٹ کی پابندی

23 دسمبر 2010

یکم جنوری 2011ء سے یورپی یونین کو بائیو ڈیزل برآمد کرنے والی غیر ملکی فرموں کو یہ سرٹیفیکیٹ دکھانا پڑے گا کہ اُن کی مصنوعات کی تیاری کے دوران بچوں سے بیگار نہیں لی گئی اور نہ ہی ماحول کی تباہی کا خطرہ مول لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/zoit
تصویر: DW/ Martin Vogl

عالمگیر تجارت کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ یورپ میں صارفین کو اکثر یہ پتہ نہیں چلتا کہ جو چیز وہ خرید رہے ہیں، اُس کی تیاری کن حالات میں عمل میں آئی ہے۔ یکم جنوری 2011ء سے یورپ میں اپنی مصنوعات فروخت کے لئے پیش کرنے والی غیر ملکی فرموں کو ایسے سرٹیفیکیٹ پیش کرنا ہوں گے، جو یہ ضمانت دے سکیں کہ متعلقہ مصنوعات کی تیاری کے دوران نہ تو بچوں سے بیگار لی گئی، نہ کسی کا استحصال کیا گیا اور نہ ہی اُن کی تیاری سے ماحول کو کوئی نقصان پہنچا۔

غیر ملکی کمپنیوں کے لئے اِس طرح کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والوں کو آڈیٹر بھی کہا جاتا ہے۔ جرمنی کے اِنگو وینسل یہی کام کرتے ہیں اور گزشتہ چند مہینوں سے وہ دُنیا کے مختلف خطوں میں جا کر بائیو فیول کی تیاری کے عمل کو جانچتے ہیں اور اپنا اطمینان کر لینے کے بعد ممکنہ طور پر ایسا سرٹیفیکیٹ جاری بھی کرتے ہیں۔

Rapsfeld
سرسوں کا کھیتتصویر: Jürgen Uting

اِنگو وینسل، جو حال ہی میں انڈونیشیا کے دورے سے واپَس آئے ہیں، بتاتے ہیں:’’ہم انڈونیشیا میں کوئی ایسا محکمہ قائم نہیں کر سکتے، جو وہاں پورے ملک میں کاشتکاروں کی نگرانی کر سکے۔ یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ عالمگیریت کے اِس دور میں اگر ہم دوسرے ممالک میں اپنی مرضی کے مطابق اَشیاء تیار کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں نئے نظام وضع کرنا ہوں گے۔ اِس سلسلے میں یہ نئے سرٹیفیکٹ ایک اچھا ذریعہ ہیں۔‘‘

یکم جنوری سے ایسے سرٹیفیکیٹ ہر اُس شخص یا ادارے کے لئے لازمی ہوں گے، جو کسی نہ کسی طرح سے بائیو فیول کی تیاری، اُسے محفوظ رکھنے یا ٹرانسپورٹ کرنے کے شعبے سے وابستہ ہو گا۔ اِنگو وینسل بتاتے ہیں:’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ زمین اور اِس کے ماحول کی حفاظت کی جائے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اِس ایندھن کی تیاری کے عمل کے دوران دلدلی علاقے خشک کئے جائیں، جنگلات تباہ کئے جائیں یا سرسبز علاقے ختم کئے جائیں۔‘‘

جہاں انڈونیشیا کی پام آئل برآمد کرنے والی چھ فرموں کو ایسے سرٹیفیکیٹ جاری کئے جا چکے ہیں، وہاں برازیل، پاکستان یا گوئٹے مالا کو ابھی تک ایسے سرٹیفیکیٹ نہیں ملے۔ یہ ممالک ایتھانول یا اِس کے لئے ضروری خام مادہ یورپی یونین کو برآمد کرتے ہیں۔

Ölpalmenplantage Malaysia Energie Biokraftstoff
ملائیشیا میں پام کے پیڑتصویر: AP

اِنگو وینسل بتاتے ہیں:’’میرے خیال میں اِن ممالک میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے کام کے بارے میں تمام تر تفصیلات کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ مثلاً وہ یہ حساب کتاب نہیں رکھتے کہ فی ہیکٹر کتنی کھاد استعمال ہو رہی ہے، فی ہیکٹر کام کے کتنے گھنٹے صرف ہو رہے ہیں، تیل درحقیقت کتنا حاصل ہوا ہے، فصل کی پیداوار کتنی ہوئی ہے اور کتنا کچھ برآمد کیا گیا ہے۔‘‘

یہ سرٹیفیکیٹ ISCC یعنی انٹرنیشنل سسٹینیبلٹی اینڈ کاربن سرٹیفیکیشن سسٹم کے تحت دیا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں تسلیم کیا جانے والا یہ سرٹیفیکیٹ ابھی صرف جرمنی میں جاری کیا جاتا ہے کیونکہ جرمنی ہی نے سب سے پہلے یورپی یونین کے متعلقہ ضوابط کو رائج کیا ہے۔ یورپی یونین کے دیگر ممالک کے ہاں یہ منزل ابھی دور ہے۔

آڈیٹرز کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے اب اور ممالک میں نئے آڈیٹرز کی تربیت جاری ہے۔ اِس سرٹیفیکیٹ کے لئے ایک ہزار تا دَس ہزار یورو فیس ادا کرنا پڑتی ہے اور اِس کا انحصار اِس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی ادارہ کتنا چھوٹا یا بڑا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں