1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک پاکستانی چیک پوسٹ پر درجنوں طالبان کا حملہ

18 مئی 2011

آج بدھ کو پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور کے قریب 70 سے زیادہ عسکریت پسندوں نے ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا۔ حکام کے مطابق اِس کے بعد شروع ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/11IeU
پشاور حملہ، فائل فوٹو
پشاور حملہ، فائل فوٹوتصویر: AP

پاکستانی سکیورٹی افسر عبدالجبار نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ سربند پولیس چوکی پر اِس حملے میں پانچ سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ آج علی الصبح افغان سرحد کے نزدیک خیبر کے علاقے میں پیش آیا، جو پاکستان کے اُس قبائلی علاقے کا ایک حصہ ہے، جسے القاعدہ کے ساتھ ساتھ افغان اور پاکستانی طالبان کا بھی گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور جسے واشنگٹن حکومت دُنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دے چکی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ پہلا حملہ آدھی رات کو اور دوسرا رات کے آخری پہرکیا گیا۔ عبدالجبار کا کہنا تھا:’’ اُن (عسکریت پسندوں) کے پاس AK-47 رائفلیں اور راکٹ تھے۔ ہم نے کامیابی سے پہلے حملے کو پسپا کر دیا۔ پھر اُنہوں نے دوبارہ حملہ کیا، جس کے نتیجے میں فائرنگ کا ایک طویل تبادلہ شروع ہو گیا، جو ڈہائی گھنٹے تک جاری رہا۔‘‘

اُنہوں نے کہا کہ اِس حملے میں ایک پولیس اہلکار اور نیم فوجی دستوں کا ایک سپاہی ہلاک ہو گئے۔ عبدالجبار نے مزید کہا:’’دوسری جانب (عسکریت پسندوں کے ہاں) بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن وہ لوگ اپنے ساتھیوں کی لاشیں ساتھ لے گئے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ اُن میں سے کتنے لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔‘‘

اِس سال مارچ میں ایک دہشت پسندانہ حملے کے زخمیوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے
اِس سال مارچ میں ایک دہشت پسندانہ حملے کے زخمیوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ایک سینئر پولیس افسر محمد اعجاز خان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے اِس چوکی پر دستی بم پھینکے اور راکٹ بھی فائر کیے۔ اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگ خیبر کے علاقے کی جانب سے آئے تھے اور پھر اُسی طرف فرار ہو گئے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ عسکریت پسند موٹر گاڑیوں میں بیٹھ کر آئے تھے، جو اُنہوں نے قبائلی علاقے میں ہی چھوڑ دیں اور باقی راستہ پیدل چل کر پولیس چوکی تک پہنچے تھے۔ پولیس کا اندازہ ہے کہ یہ حملہ یا تو تحریک طالبان نے کیا ہے یا پھر اِس کے پیچھے ایک مقامی جنگجو سردار منگل باغ کے انتہا پسند گروپ لشکر اسلام کا ہاتھ ہے کیونکہ یہ دونوں ہی خیبر کے علاقے میں سرگرم عمل ہیں۔

واضح رہے کہ دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی خصوصی دستے کے ہاتھوں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ اور طالبان سے وابستہ عسکریت پسندوں نے پاکستان کے اندر اپنے حملے تیز تر کر دیے ہیں۔

آج بدھ کو ہی ایک اور پُر تشدد واقعے میں، جو پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں پیش آیا، ایک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے ایک منی بس پر فائرنگ کرتے ہوئے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے پانچ شہریوں کو ہلاک اور چھ کو زخمی کر دیا۔ پولیس کے خیال میں اِس واقعے کے پیچھے غالباً فرقہ وارانہ کشیدگی کارفرما ہے اور یہ حملہ ممکنہ طور پر سنی انتہا پسندوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں