1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک استانی کی زندگی افغان مہاجر لڑکیوں کے لیے

امتیاز احمد15 ستمبر 2015

صوبہ پنجاب میں اس خاتون استاد نے اپنی زندگی افغان مہاجر لڑکیوں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ بچیوں کو خیموں میں تعلیم دینے والی اس ٹیچر کو اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین نے خصوصی ایوارڈ سے نوازہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1GWd7
UNHCR Flüchtlingshilfe Aqeela Asifi gewinnt Nansen Flüchtlingspreis 2015 NUR ALS BILDZITAT ZU VERWENDEN
تصویر: UNHCR

انچاس سالہ عقیلہ آصفی سن انیس سو بانوے میں اپنے خاندان کے ہمراہ کابل کو خیر آباد کہہ دیا تھا اور ان کا یہ سفر پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی کے ایک دور دراز کے دیہات کوٹ چاندنہ میں ختم ہوا۔ عمومی طور پر افغان خاندانوں میں لڑکیوں کو گھر پر ہی رکھا جاتا ہے لیکن عقیلہ آصفی نے وسائل کی کمی کے باوجود وہاں موجود افغان کمیونٹی کے دل جیتے اور والدین کو قائل کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجا کریں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آج بھی اسّی فیصد افغان مہاجرین کے بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ اس کے برعکس کوٹ چاندنہ میں ایک ہزار سے زائد بچے مستقل اسکولوں میں جاتے ہیں۔ عقیلہ آصفی کو سالانہ ’نینسن رفیوجی ایوارڈ‘ دینے کی تقریب کا انعقاد آئندہ مہینے جنیوا میں کیا جائے گا جبکہ فاتح کو ایک لاکھ ڈالر بھی فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے موجود منصوبے کو پایہ تکیمل پہنچا سکے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ عقیلہ آصفی کو یہ ایوارڈ بہادری اور انتھک لگن کے ساتھ مہاجر بچیوں کو تعلیم دینے کی وجہ سے دیا جا رہا ہے۔

عقیلہ آصفی کا کہنا تھا، ’’جب مائیں تعلیم یافتہ ہوں گی تو یقینی طور پر مستقبل کی نسلیں بھی تعلیم یافتہ ہوں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میری خواہش ہے کہ لوگ ایک دن افغانستان کو جنگ کی بجائے تعلیمی معیار کی وجہ سے یاد کریں۔‘‘ اس خطے میں ابھی تک بچیوں کی تعلیم کے لیے مواقع کی کمی ہے جبکہ پاکستان کی ملالہ یوسفزئی نے بھی بچیوں کی تعلیم کے لیے مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔

اس وقت تقریباﹰ چھبیس لاکھ مہاجرین جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق دنیا کسی ایک ملک کے مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ سن دو ہزار ایک میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کئی لاکھ افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ انتونیو گوئتیرس کا جنیوا میں کہنا تھا، ’’مہاجرین کی تعلیم میں سرمایہ کاری کا مطلب یہ ہے کہ بچے تنازعات اور عدم تحفظ کے جاری دائرے کو توڑیں گے۔‘‘

اقوام متحدہ کے اس ادارے کا مزید کہنا تھا کہ عقیلہ نے اس وجہ سے بھی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں کہ وہ خود بھی جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور مہاجر لڑکیوں کو مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جس وقت عقیلہ نے تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا تھا اس وقت ایک ٹینٹ میں صرف چند لڑکیاں ان کے پاس آتی تھیں۔ عقیلہ ہزاروں لڑکیوں کو پرائمری تعلیم کے دوران رہنمائی فراہم کر چکی ہیں۔