1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایلس ویلز کا دورہ: کیا پاکستان گرے لسٹ سے نکل پائے گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
20 جنوری 2020

امریکا کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کے موقع پر اسلام آباد یہ توقع کر رہا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے میں مدد دے گی۔

https://p.dw.com/p/3WUD1
Paksitan - US-Delegierte Alice Wells trifft Qamar Javed Bajwa
تصویر: picture alliance/AP Photo/alice wells

ایلس ویلز کل بروز اتوار اپنے چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچی تھیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد پاکستانی حکام سے خطے کی صورت حال، افغانستان میں قیام امن کی کوششیں اور کشمیر کی صورت حال صورت حال پر گفتگو کرنا ہے۔ تاہم پاکستان میں سرکاری حلقے اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ اس دورے سے پاکستان کے لیے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا راستہ ہموار ہو گا اور یہ کہ پاکستانی حکام امریکی عہدیدار کو قائل کریں گے کہ امریکا اس لسٹ میں سے پاکستان کو نکلوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ اس خواہش کا اظہار پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے حالیہ دورہ امریکا کے دوران بھی کیا، جس میں انہوں نے امریکا کو یاد دلایا کہ پاکستان نے افغانستان کے استحکام کے لیے بھرپور تعاون کیا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آیا۔

ایلس ویلز کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب چین میں منگل کو بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اس کی سربراہی چین اور بھارت مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

 اس اجلاس میں پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر ملک کی نمائندگی کریں گے۔ واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ستائیس نکات پر عمل درآمد کے لیے کہا تھا۔ ان نکات کے تفصیلی جوابات پاکستان آٹھ جنوری کو جمع کرا چکا ہے اور امید ہے کہ کل کے اجلاس میں ان نکات کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

 پاکستان کے سرکاری حلقے پر امید ہیں کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔ پاکستان میں کئی حلقے اس خوش امیدی سے اتفاق بھی کرتے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کے خیال میں امریکا کا بنیادی مفاد طالبان کے ساتھ امن معاہدے سے جڑا ہے، ''اس کے لیے پاکستان امریکا کا بھر پور ساتھ دے رہے ہے۔ ایلس ویلز کے دورے میں بھی طالبان سے مذاکرات اور افغانستان میں امن جیسے موضوعات زیر بحث رہیں گے۔ پاکستان یہ چاہے گا کہ امریکا اس کو ایف اے ٹی ایف سے نکوالنے میں مدد کرے اور میرے خیال میں واشنگٹن ایسا کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔‘‘

دفاعی تجزیہ کار  جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب بھی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کے لیے امریکا کی مدد چاہتا ہے، ''پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر بٹھا دیا۔ میرے خیال میں افغانستان میں تشدد میں کمی بھی آئے گی اور طالبان اپنے حملوں میں کمی کریں گے تاکہ امریکی فوجوں کا انخلا ہو سکے۔ تو یقیناﹰ پاکستان ایلس ویلز سے یہ کہہ گا کہ واشنگٹن پاکستان کو گرے لسٹ میں سے نکلوالنے میں مدد کرے۔ ایف اے ٹی ایف اور افغان امن عمل اس دورے کے بنیادی نکات ہیں لیکن میرے خیال میں امریکا پاکستان میں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے اور اس دورے میں اس حوالے سے بھی بات چیت کا امکان ہے۔‘‘

تاہم کئی ناقدین کا خیال ہے کہ امریکا کا ایف اے ٹی ایف سیمت بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ ہے لیکن اس تنظیم میں تیس سے زائد ارکان ہیں، جن میں اکثریت پاکستان کے حوالے سے کوئی مثبت سوچ نہیں رکھتی۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا خیال ہے کہ امریکا ابھی پاکستان کی اس حوالے سے مدد نہیں کرے گا، ''میرا خیال ہے کہ امریکا ابھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے میں مدد نہیں کرے گا کیونکہ ابھی تک ہم نے افغانستان میں قیام امن کے لیے بھر پور اقدامات نہیں کیے ہیں۔ امریکا ابھی تک اسلام آباد پر مکمل بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ یہ در پردہ افغان طالبان کی مدد کرتے ہیں اور انہیں مکمل طور پر جنگ بندی کے لیے قائل نہیں کر سکیں ہیں۔‘‘

اقتصادیات اور بینکنگ سیکٹر سے وابستہ کچھ ماہرین بھی اس دورے سے کوئی خاص امید نہیں لگا رہے۔ کراچی کے بینکنگ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے شاہ فہد کہتے ہیں کہ اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی سخت شرائط کو پورا نہیں کرتا تو گرے لسٹ سے نہیں نکلے گا، ''ہمیں ایلس ویلز کے دورے سے امیدیں لگانے کے بجائے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے پاس ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک اور خود بینکوں کو بھی صحیح معنوں میں منی لانڈرنگ کی تعریف نہیں پتا تو یہ دوسرے اقدامات کیسے کریں گے؟ ابھی کچھ مہینے پہلے بینکوں کے اسٹاف کو اس حوالے سے کچھ تربیت دی گئی ہے۔ تو میرے خیال میں ان شرائط کو پورا کرنے میں وقت لگے گا اور پاکستان کم از کم ابھی گرے لسٹ پر ہی رہے گا۔‘‘

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ بھی دعوی کیا گیا کہ ایلس ویلز اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گی۔ تاہم اسٹیٹ بینک کے ایک ترجمان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایسی کسی بھی ملاقات سے لا علمی کا اظہار کیا۔ وزارت خارجہ کے ذرائع نے بھی ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود سے ابھی تک کوئی ملاقات طے نہیں ہوئی۔ تاہم ایلس ویلز نے امریکی وفد کے ساتھ وزیر تجارت رزاق داود سے آج اسلام آباد میں ملاقات کی، جہاں ایلس ویلز نے زراعت سمیت مختلف شعبوں میں تجارتی تعاون کے حوالے سے بات چیت کی۔