1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران پر امریکی حملے کے بڑھتے ہوئے امکانات

10 اپریل 2006

معروف امریکی جریدے New Yorker کےلئے اپنے ایک مضمون میں ایک ممتاز امریکی صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ ایران کے ایک زیر زمین ایٹمی مرکز کو ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کے منصوبوں پر غور کر رہا ہے۔ امریکہ نے اِس رپورٹ کی تردید کر دی ہے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ کیا واقعی امریکہ ایران کے خلاف جنگ کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے ، اِس موضوع پر ڈوئچے وَیلے کےPeter Philipp کا لکھا ہوا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/DYM4
حال ہی میں برلن میں ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس
حال ہی میں برلن میں ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنستصویر: AP

دھمکیاں دینے یا الٹی میٹم کی شکل میں مطالبات کرنے والے کو کبھی نہ کبھی یہ ثبوت بھی دینا پڑتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ، اُس میں سنجیدہ بھی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ اُسے محض کاغذی شیر سمجھ کر اُس کا مذاق اُڑانے لگیں۔ دُنیا کی واحد باقی بچ جانےوالی بڑی طاقت پر تو اِس اصول کا خاص طور پر اطلاق ہوتا ہے۔ اب جبکہ تین سال سے بھی زیادہ عرصے سے امریکہ ایران کو اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے اور تہران بالکل ہی مرعوب نہیں ہو رہا ، تو اب واشنگٹن سے مبینہ جنگی تیاریوں کی خبریں سنائی دینے لگی ہیں۔ ٹھوس رپورٹیں ، جن میں ایران میں سرگرمِ عمل خصوصی یونٹوں سے لےکر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک کے منصوبوں کاذکرکیاجا رہا ہے۔

امریکی جریدے نیو یارکر کی جس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکہ ایران کے ایک زیرِ زمین ایٹمی مرکز کو ایٹمی ہتھیاروںکے ذریعے تباہ کرنے پر غورکررہاہے، وہ ممتازامریکی صحافی سیمور ہَیرش کی لکھی ہوئی ہے ، جنکے بارے میں یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صدر بُش کی حکومت کےلئے کام کرتے ہونگے۔ کھرے کھرے الفاظ میں ہَیرش لکھتے ہیں کہ کیسے مبلغانہ جوش میں بُش کے ارگرد جمع سیاستدان ایٹمی ہتھیاروں تک کے استعمال پر غور کر ر ہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اُن کے پیشِ نظر ایران کا متنازعہ ایٹمی پروگرام نہیں ہے بلکہ وہ تہران میں ایک نئی حکومت برسرِ اقتدار لانا چاہتے ہیں۔

کتنی سادہ لوحی سے سوچا گیا خاکہ ہے : یعنی ایران میں چند ایک فضائی حملوں کے نتیجے میں ایران میں حکومت غیر مستحکم ہو جائےگی اور عوام حکومت کےخلاف اُٹھ کھڑے ہونگے۔ امریکہ غالباً عراق کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ ویسے بھی عراق اور ایران کے حالات کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔

بہت سے ایرانی باشندے اپنے سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں لیکن مشکل وقت میں وہ اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ چنانچہ واشنگٹن حکومت اِس وقت جو کوششیں کر رہی ہے، اُسکے بالکل ہی اُلٹ نتائج برآمد ہونگے یعنی کوئی عوامی بغاوَت شروع نہیں ہو گی اور امریکی حملے کی دھمکی بھی ایرانی حکومت کے اِس عزم کو اور پختہ کر دے گی کہ اب تو اُسے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو ضرور ہی اور جلد از جلد عملی شکل دینی چاہیے۔

جہاں بُش حکومت یہ خواب دیکھ رہی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا ملک جمہوریت کیطرف مائل ہوتا جائےگا، وہاں حقیقت میںایک کے بعددوسرے ملک میں انتہا پسندی مستحکم ہوتی جائےگی۔اِس وقت دیگراسلامی ممالک کی جانب سے ایران کےساتھ خواہ کتنی ہی کم یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہو لیکن یہ ملک ایران پر ایٹمی حملے کو قبول نہیں کرینگے اور یوں پورا خطہ جنگ کے بادلوں کی لپیٹ میں آ جائےگا۔

خود امریکہ چاہے تو حالات کو یہ رُخ اختیار کرنے سے روک بھی سکتاہے اور وہ اِس طرح کہ امریکہ تہران حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرے۔ لیکن جیسے ہی اِن مذاکرات کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے،امریکہ پیچھے ہَٹ جاتاہے۔جیسا کہ اب عراق کے بارے میں مجوزہ مذاکرات کے دوران ہوا۔ تب واشنگٹن حکومت نے کہا کہ امریکہ تہران حکومت کےساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ وہاںحکومت تبدیل ہوجائے اوروہاں تیل اور گیس کے معدنی ذخائر پر کنٹرول حاصل ہو جائے۔

یہ حالات یورپی ممالک کے لئے بھی بے حد خطرناک ہیں،جو آجکل دَست بستہ واشنگٹن کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اگر یورپی یونین نے اب کوئی واضح مَوقِف اختیار نہ کیاتو تمام تر حالات کی ذمہ داری میں یورپی ممالک بھی برابر کے شریک ہوں گے۔