ایران میں احتجاجی مظاہرے تھم گئے
22 جون 2009انتخابی نتائج کے خلاف ہفتہ کو سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان پرتشّدد جھڑپوں میں تیرہ افراد ہلاک ہوئے۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن ’’پریس ٹی وی‘‘ نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی۔ بارہ جون کے صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے پرتشّدد واقعات میں سرکاری طور پر اب تک سترہ افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی جاچکی ہے تاہم غیرسرکاری ذرائع ہلاک شدگان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتارہے ہیں۔
ناکام صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کے حامی حالیہ انتخابات میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی جیت کو تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کررہے ہیں کہ انتخابی عمل بڑے پیمانے پر دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں کا شکار رہا لیکن ملک کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ائی انتخابی نتائج کو ’’آزادانہ اور شفاف‘‘ قرار دے چکے ہیں۔
متعدد مغربی ملک، بشمول جرمنی، ایرانی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کررہے ہیں۔ مغربی ممالک کے رہنماوٴں کا موقف ہے کہ مہذب سماج میں لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کو ایران کی سیاسی قیادت پر زور دیا کہ وہ پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ چانسلر نے تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
’’میں ایران کی سیاسی قیادت پر زور دیتی ہوں کہ وہ پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو بند کرے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔‘‘
جرمن چانسلر میرکل نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ جرمنی، ایران کے عوام کے ساتھ ہے۔
فرانس نے ایران میں دوبارہ صدارتی انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ کیا۔ فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی نے کہا کہ پرامن مظاہرین پر تشّدد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔
ایران کے روایتی حریف اسرائیل نے ایرانی حکام پر زبردست تنقید کی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے صدارتی انتخابات کے نتائج کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی ہمت کی داد دی۔ نیتن یاہو نے کہا کہ یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ ایرانی عوام ’’پابندیوں سے مکمل نجات اور آزادی چاہتے ہیں‘‘۔
سابق ایرانی وزیر اعظم اور ناکام صدارتی امیدوار میر حسین موسوی دوبارہ انتخابات منعقد کروانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور مغربی ممالک موسوی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد امریکہ اور برطانیہ سے واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ’’اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔‘‘
دریں اثناء ایرانی حکام نے مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے مقامی اور بیرونی صحافیوں پر بھی سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ تہران میں بی بی سی کے نمائندے کو ملک چھوڑنے کے لئے کہا گیا ہے۔ گروپ ’رپورٹرز بغیر سرحد‘ کے مطابق اب تک ایران میں 23 مقامی صحافیوں اور بلاگرز کو گرفتار کیا گیا ہے۔