1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی میں مہاجرین کی آمد کم کیسے ہوئی؟ ماہرین پریشان

شمشیر حیدر اے ایف پی
15 اگست 2017

بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اچانک کمی ہوئی ہے۔ مہاجرت کے امور کے ماہرین کو اس اچانک کمی کی وجوہات جاننے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2iFSq
تصویر: picture alliance/dpa/NurPhoto/C. Marquardt

عام طور پر گرمیوں کے موسم میں بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے شمالی افریقی ممالک سے اطالوی ساحلوں کا رخ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر رواں برس اس رجحان میں اچانک کمی دیکھی گئی ہے۔

پناہ کے لیے مسترد شدہ درخواستوں والے افراد اپنے وطن واپس جائیں، میرکل

پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری ہو گی، جرمن وزیر

اطالوی حکام کے مطابق اس برس یکم جولائی سے لے کر اب تک ساڑھے تیرہ ہزار تارکین وطن نے ان راستوں کا انتخاب کیا۔ یہ تعداد گزشتہ برس کے اسی دورانیے کے دوران ساڑھے تیس ہزار سے زائد رہی تھی۔

ان سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی کا رخ کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق سب صحارا کے افریقی ممالک سے ہے، جو اپنے وطنوں میں جاری پر تشدد واقعات کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے (یو این ایچ سی آر) کی ترجمان باربرا مولیناریو کے مطابق، ’’ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ رجحان حقیقی ہے۔‘‘

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے

کچھ ماہرین کے مطابق مہاجرین کی آمد میں کمی کی بظاہر وجہ لیبیائی ساحلی محافظوں کی جانب سے کی گئی سختی ہے۔ یورپی یونین نے رواں موسم سرما میں لیبیاکے سو سے زائد ساحلی محافظوں کو تربیت فراہم کی تھی۔

لیکن بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت اس جواز سے متفق نہیں ہے۔ آئی او ایم کے مطابق جولائی کے مہینے میں ان ساحلی محافظوں نے قریب دو ہزار تارکین وطن کو اٹلی کی جانب سفر کرنے سے روکا تھا۔ جب کہ اس سے پہلے جون کے مہینے میں ان کوسٹ گارڈز نے چار ہزار سے زائد تارکین وطن کو سمندری راستے اختیار کرنے سے روک دیا تھا۔

مہاجرت پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کو ریسکیو کرنے والی سماجی تنظیموں نے اطالوی اور یورپی حکومتوں کے سخت اقدامات کے باعث اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔ انسانوں کے اسمگلر تارکین وطن کو دانستاﹰ ان امدادی بحری جہازوں کے قریب لے آتے تھے جس کے بعد سماجی ادارے انہیں ریسکیو کر کے اٹلی پہنچا رہے تھے۔

لیکن یہ وضاحت بھی اس لیے درست نہیں ہے کیوں کہ سماجی اداروں کی امدادی سرگرمیاں پہلے ہی کافی کم تھیں۔ علاوہ ازیں اب بھی سماجی اداروں کے تین بحری جہاز مہاجرین کو بچانے میں سرگرم ہیں۔

اریٹریا سے تعلق رکھنے والے موسیٰ زیرائے مشکل وقتوں میں مہاجرین کی مدد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی کمی کی ایک بڑی وجہ یورپی یونین  اور ان ممالک کے مابین طے پانے والے معاہدے ہیں، جن سے گزر کر عموماﹰ مہاجرین یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔

زیرائے کے مطابق، ’’روٹ بند کر دیے گئے ہیں اور ان راستوں کی نگرانی سخت کر دی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ سوڈان میں حکام نے سرحدی نگرانی سخت کی ہے لیکن سماجی اداروں کے مطابق حکومت اس مقصد کے لیے متشدد مافیا کو استعمال کر رہی ہے۔

اسی طرح لیبیا میں بھی یورپی حکام نے مختلف قبائل سے معاہدے کیے ہیں۔ زیرائے نے اے ایف پی کو بتایا، ’’لیبیا کے جنوب میں آباد مختلف قبائل نے بھی معاہدے کیے گئے ہیں۔ وہاں تارکین وطن کو صحرا میں بنائے گئے کیمپوں میں قید کر دیا جاتا ہے، یا پھر انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘

آئی او ایم کے مطابق تارکین وطن کے لیے لیبیا میں خوف اور خطرے کی فضا ہے۔ اسی وجہ سے اسپین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

مہاجرین کو ریسکیو کرنے والے بحری جہاز کی سرگرمیاں معطل

آسٹریا: پناہ کے متلاشیوں میں شامی، افغان اور پاکستانی نمایاں