1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايک امريکی مسجد، جو مسجد نظر نہيں آتی

26 ستمبر 2011

امريکہ کے شہر اوہايو کے مضافات ميں جہاں اناج کے کھيت ختم ہوتے ہيں، ايک سفيد عمارت واقع ہے۔ اس عمارت کا ڈيزائن بہت پر کشش ہے ليکن اسے جس مقصد کے ليے استعمال کيا جا رہا ہے، وہ اس سے صحيح طور پر مطابقت نہيں رکھتا۔

https://p.dw.com/p/12ghd
اوہايو کا ايک روايتی اسلامی طرز تعمير والا اسلامک سينٹر
اوہايو کا ايک روايتی اسلامی طرز تعمير والا اسلامک سينٹرتصویر: AP

اوہايو کی يہ مسجد امريکہ کی بڑی مساجد ميں سے ايک ہے، ليکن يہ ديکھنے ميں کوئی مسجد نہيں لگتی۔

حقيقت يہ ہے کہ اس مسجد کے تعميرکرنے والوں کا مقصد بھی يہی ہے کہ يہ بظاہر کوئی مسجد نظر نہ آئے۔ اُن کا خيال ہے کہ خاص طور پر 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اس احتياط کی ضرورت ہے۔ اس مسجد کے بانيوں ميں سے ايک خالد فراج نے کہا: ’’ہم ايک ايسی عمارت تعمير کرنے کے خواہاں تھے جو رہائشی علاقے ميں کھپ سکے۔ اس ليے ہم ماہر تعميرات کے پاس گئے اور اُس سے کہا کہ ہم ايک ايسی عمارت چاہتے ہيں، جو مسجد کی طرح نظر نہ آئے۔ ہم ايک امريکی مسجد چاہتے تھے۔‘‘

ليکن اس سوچ کا نتيجہ ايک ثقافتی تضاد کی صورت ميں برآمد ہوا ہے: يہ ايک ايسی عمارت ہے، جو پہلی نظر ميں ايک مسجد معلوم نہيں ہوتی حالانکہ وہ ايک مسجد ہی ہے۔ اس کے علاوہ يہ ہفتے ميں سات دن اسلام کے بارے ميں ہر طرح کی معلومات فراہم کرنے کا مرکز بھی ہے۔ ايک نمازی ابو رمائيلہ نے کہا: ’’يہ روايتی طرح کی نظر آنے والی مسجد نہيں ہے۔ نماز يہاں کا صرف ايک عمل ہے۔ يہ ايک کميونٹی سينٹر، ايک کلچرل سينٹر ہے۔‘‘

حقيقت يہ ہے کہ امريکہ ميں چرچ تعمير کرنے والوں کے مقابلے ميں مسجد بنانے والوں کو کہيں زيادہ جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دہشت گردی کے نتيجے ميں تباہ ہونے والے نيويارک کے ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے قريب پچھلے سال ايک اسلامی ثقافتی مرکز کی تعمير کے منصوبے کی بہت شديد مخالفت ہوئی تھی۔ اس اسلامک سينٹر کا افتتاح پچھلے ہفتے ہوا ہے۔ مرکز کے منتظمين کا کہنا ہے کہ اس کی تعمير کے منصوبوں ميں شروع ہی سے 11 ستمبر کی دہشت گردی کے متاثرين کے خاندانوں کی شرکت نہ ہونا ايک بڑی غلطی تھی۔

سينٹرل اوہايو ميں مسلمانوں کی آبادی ميں تيزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے 10 برسوں ميں يہ آبادی دوگنی ہو کر 25 ہزار سے بھی زيادہ تک پہنچ گئی ہے۔ مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مسلمانوں ميں سے اکثر کا تعلق صوماليہ سے ہے۔ اس کے علاوہ يہاں کی آبادی ميں مصر، عراق، لبنان، شام اور دوسرے ممالک کے مسلمان بھی شامل ہيں۔ يہاں کی مستحکم معيشت اور آرام دہ طرز زندگی يہاں آنے والوں کے ليے خاص طور پر پرکشش ہے۔

اسلامک سينٹر آف امريکہ، مشيگن
اسلامک سينٹر آف امريکہ، مشيگنتصویر: Omar Khalidi

نور اسلامک سينٹر کا منصوبہ 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں سے پہلے بڑی اچھی طرح سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ان حملوں کے بعد اس کی عمارت کو خاص طور پر غير مسلموں کے ليے اور زيادہ جاذب نظر بنانے کے ليے اس ميں کئی تبديلياں کی گئيں۔

اوہائيو کی سب سے زيادہ مشہور مسجد سن 1981 ميں تعمير ہوئی تھی۔ اس کے بلند ميناروں اور گنبدوں کو ميلوں دور سے ديکھا جا سکتا ہے۔ نور سينٹر ميں ميناروں سے جان بوجھ کر گريز کيا گيا ہے۔ ليکن اس ميں کھڑکيوں کی کثرت ہے جن سے لوگ اندر تک اچھی طرح سے ديکھ سکتے ہيں۔ سينٹر کا نماز کا ہال بہت وسيع و عريض ہے۔ ہر جمعہ کو يہ ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ اس ميں جو پوسٹر لگے ہوئے ہيں ان پر اس قسم کی عبارتيں لکھی ہيں: ’’ حضرت عيسٰی کے بارے ميں مسلمانوں کا نظريہ کيا ہے‘‘ ’’امريکی مسلمان کون ہيں‘‘ ۔

نور سينٹر ميں مسلمانوں کے ليے مختلف قسم کے کورس اور سہولتيں ہيں، جن ميں عربی زبان کی کلاسز بھی شامل ہيں۔ غير مسلموں کے ليے ہر ہفتے اسلام کے بارے ميں ايک معلوماتی سيمينار ہوتا ہے، جس ميں مقامی گرجا گھروں اور يہودی عبادت گاہوں سے مسيحيوں اور يہوديوں کو مدعو کيا جاتا ہے۔

اسلامک سينٹر نيو ميکسيکو
اسلامک سينٹر نيو ميکسيکوتصویر: Omar Khalidi

شمالی امريکہ ميں دوسری اکثرمساجد ميں مسجد کی روايتی اسلامی تعميراتی طرز ہی کو اپنايا گيا ہے۔ سن 2005 ميں نيو ميکسيکو کے، ايک عام جديد بلڈنگ نظر آنے والے اسلامک سينٹر کو گرا کر ايک نيا سينٹر تعمير کيا گيا، جس ميں روايتی گنبد اور مينارہ بھی ہے۔ مشیگن ميں، جہاں امريکی عرب مسلمانوں کی آبادی خاصی زيادہ ہے، اسلامک سينٹر آف امريکہ ہے، جس کے بلند مينارے اور سنہری گنبد علاقے کے منظر پر چھائے نظر آتے ہيں۔

اسلامک اسٹڈيز کے ماہر اکبر احمد کا کہنا ہے کہ نور سينٹر کے ڈيزائن سے اسلامی طرز تعمير کو نکال کر کلچرل روايات کو بالائے طاق رکھھ ديا گيا ہے۔ اس طرح يہ پيغام ديا گيا ہے: ’’ديکھو، ہم ايک ايسی کميونٹی ہيں، جس پر اعتماد نہيں کيا جاتا۔ ہم کمزور ہيں اور اپنے تشخص کو چھپائے رکھنا چاہتے ہيں۔‘‘

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: حماد کيانی       

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں