1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

130511 Amnesty 2011

13 مئی 2011

انسانی حقوق کی تنظيم ايمنسٹی انٹر نيشنل نے آج اپنی سن 2011 کی سالانہ رپورٹ پيش کر دی ہے۔ اس ميں کہا گيا ہے کہ انٹرنيٹ، سوشل نيٹ ورکس اور موبائل فون جيسے تکنيکی وسائل انسانی حقوق کی کوششوں ميں مسلسل اہم بنتے جارہے ہيں

https://p.dw.com/p/11FEZ
ايمنسٹی انٹرنيشنل کی سالانہ رپورٹ، جرمن زبان ميںتصویر: picture-alliance/dpa

اس رپورٹ ميں عرب ممالک کی صورتحال پر خاص توجہ دی گئی ہے۔

اظہار رائے کی آزادی ايک بنيادی انسانی حق ہے اور اسی بنياد پر آج سے 50 سال قبل ايمنسٹی انٹرنيشنل بھی قائم کی گئی تھی۔ اظہار رائے کی آزادی اس تنظيم کے کام کا اہم ترين جزو بن گئی اور يہی صورتحال اب بھی ہے۔

خصوصاً عرب ممالک ميں بلاگر، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن سياسی اصلاحات اور انسانی حقوق کے احترام کے مطالبات کے ليے نئی ٹيکنالوجی کو مسلسل زيادہ استعمال کررہے ہيں۔

ايمنسٹی انٹر نيشنل کی جرمن شاخ کے نائب جنرل سيکرٹری جنرل وولف گانگ گرينس نے کہا کہ بغاوتوں، احتجاجات اور ہڑتالوں کی خبريں انٹرنيٹ اور موبائل فونوں کے ذريعے تيزی سے پھيلی ہيں اور مصر اور تيونس ميں آنے والی تبديليوں ميں ان تيکنيکی ذرائع کا کردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ليکن ابھی يہ ديکھنا باقی ہے کہ کيا عرب دنيا ميں بغاوتوں کے کامياب نتائج برآمد ہوں گے کيونکہ حکومتيں اور حکمران پوری سختی سے جوابی کارروائياں کر رہے ہيں۔ آزادی اور انصاف مل سکے گا يا نہيں، اس کے ليے يہ بہت نازک وقت ہے۔‘‘

Amnesty Report 2011 Wolfgang Grenz
وولف گانگ گرينستصویر: picture-alliance/dpa

شمالی افريقہ اور مشرق وسطٰی کے بہت سے دوسرے ملکوں کی طرح مصر ميں بھی لوگ تبديلياں چاہتے ہيں۔ ليکن مصر ميں حالات ميں کوئی خاص تبديلی نہيں آئی ہے۔ وولف گانگ گرينس نے کہا کہ آزاد ٹريڈ يونين تنظيموں کے قيام کے بجائے اسی سال وہاں ايک نيا قانون نافذ ہوا ہے، جس کے تحت پر امن احتجاج اور ہڑتال کو جرم قرار دے ديا گيا ہے۔ ايمنسٹی انٹرنيشنل کی جرمن شاخ کے گرينس نے کہا: ’’جرمن حکومت، يورپی يونين اور امريکی حکومت کو اب مصر کی عبوری حکومت اور فوج سے مطالبہ کرنا چاہيے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے ليے ٹھوس اقدامات کريں۔‘‘

Logo AMNESTY INTERNATIONAL
ايمنسٹی انٹر نيشنل کا لوگوتصویر: APGraphics

ايمنسٹی انٹرنيشنل کی سال رواں کی رپورٹ ميں شام، ليبيا، بحرين اور يمن کی حکومتوں پر تنقيد کی گئی ہے کہ وہ پرامن مظاہرين کو ہلاک کرنے سے بھی نہيں جھجھکتيں۔ سوڈان ميں بھی صحافيوں، سياسی طور پرسرگرم شہريوں اور حکومت کے ناقدين قرار پانے والے افراد پر سختياں جاری ہيں۔

ايمنسٹی کی اس رپورٹ کے مطابق چين ميں بھی حکام صحافيوں، انسانی حقوق کے وکلاء، تحفظ ماحول کے کار کنوں، اديبوں، فنکاروں اور عام شہريوں کو بھی سياسی طور پر اہم موضوعات منظر عام پر لانے سے روک رہے ہيں۔

ايمنسٹی انٹرنيشنل کی سالانہ رپورٹ ميں جرمنی اور دوسرے ممالک سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا ہے کہ وہ بحران زدہ علاقوں سے فرار ہوکر آنے والے ہزاروں افراد کو اپنے ہاں پناہ ديں۔

رپورٹ: زابينے رپيرگر/ شہاب احمد صديقی

ادارات: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں