1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايران ميں حکومت مخالف مظاہرے کس رُخ بڑھ رہے ہيں؟

عاصم سلیم
1 جنوری 2018

ايران ميں کمزور اقتصاديات کے خلاف پچھلے ہفتے سے جاری حکومت مخالف مظاہرے اتوار اور پير کی درميانی شب بھی جاری رہے۔ صدر حسن روحانی کی تقرير اور ملک ميں سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کی بندش کے باوجود عوام برسر احتجاج ہيں۔

https://p.dw.com/p/2qB6P
Iran Proteste pro Regierung in Teheran
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Noroozi

ايرانی صدر حسن روحانی نے اتوار اکتيس دسمبر کی رات ملکی ٹيلی وژن پر نشر کردہ اپنے ايک خطاب ميں کہا، ’’عوام کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ تنقيد اور احتجاج کريں۔‘‘ تاہم ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کا اظہار رائے اور تنقيد سے کوئی تعلق نہيں۔ روحانی نے اپنی اس تقرير ميں سرکاری اداروں پر زور ديا کہ عوام کو قانون کے دائرے ميں رہتے ہوئے تنقيد اور احتجاج کی رعایت دی جانی چاہيے۔ ايرانی صدر نے زيادہ شفافيت اور ذرائع ابلاغ کے بہتر کردار کی ضرورت پر بھی زور ديا۔

 

ايران ميں گزشتہ جمعرات سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہيں، جو اب دارالحکومت تہران سميت کئی شہروں تک پھيل چکے ہيں۔ ايرانی عوام ملک کی کمزور اقتصادیات اور خراب معیار زندگی کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہيں۔ روحانی سماجی سطح پر ملکی صورتحال ميں بہتری اور اقتصاديات کو بہتر بنانے کے وعدوں کے ساتھ سن 2013 ميں ملکی صدر بنے تھے تاہم اس وقت ملک ميں روز مرہ کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہيں جبکہ بے روزگاری کی شرح بارہ فيصد ہے۔ اس ضمن ميں جاری مظاہروں کو پچھلی ايک دہائی ميں ملکی سطح پر ہونے والے ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے بھی قرار ديا جا رہا ہے۔

Ayatollah Khamenei und Hassan Rohani
تصویر: picture-alliance/dpa

اتوار کی رات تہران کے ايک مرکزی چوک پر مظاہرین کے خلاف حکام نے آنسو گيس اور تيز دھار پانی کا بھی استعمال کیا۔ علاوہ ازيں کئی ديگر شہروں ميں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ ان مظاہروں ميں اب تک دس افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ پوليس کے مطابق يہ ہلاکتيں ان کی فائرنگ سے نہيں بلکہ ’بيرون ملکی ايجنٹس‘ کی کارروائی کے نتيجے ميں ہوئی تھيں۔

اس دوران يہ امر بھی اہم ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ان مظاہروں کے مناظر نہيں دکھائے جا رہے، جس سبب عوام نے سوشل ميڈيا کا رخ کيا۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ حکومت نے ’ٹيلی گرام‘ اور ’انسٹاگرام‘ پر بھی پابندی لگا دی ہے۔