1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما سے وابستہ توقعات اور مایوسی

20 جولائی 2009

امريکی صدراوباما سے يہ توقعات وابستہ کی جارہی ہيں کہ وہ سارے عالمی مسائل کے حل تلاش کرليں گے۔ ڈوئچے ويلے کے ميشائل کنگے کا خيال ہےکہ يہ توقعات اتنی زيادہ ہيں کہ شايد ان کو پورا کرنا کسی اور کے لئے بھی مشکل ہوتا۔

https://p.dw.com/p/ItIp
امریکی صدر اوباما کے عہدہ سنبھالنے سے لے کر اب تک پوری دنیا کو ان سے انتہائی بلند توقعات ہیںتصویر: AP

باراک اوباما، درحقيقت امريکی رياست الينوائے کے ايک نسبتا ناتجربہ کار سينيٹرتھے۔ وہ اپنے زبردست زورِ خطابت اور سياسی صلاحيتوں کے ساتھ ساتھ اِس وجہ سے بھی وہائٹ ہاؤس ميں پہنچے ہيں کہ لوگ جارج بش کے آٹھ سالہ دور حکومت کے بعد ايک بنيادی تبديلی کے خواہشمند تھے۔ اپنی انتخاباتی مہم کے دوران اوباما، ايک نو آزمودہ سينيٹر سے ايک سپر اسٹار بن گئے۔

امريکہ سے بھی زيادہ دنيا بھر کے باشندے مختصر سے عرصے ميں دنيائے سياست ميں نمودار ہونے والے ايک ايسے ليڈر کے پرستار بن گئے جسے کچھ ہی عرصہ پہلے کوئی جانتا تک نہيں تھا۔ رائے عامہ کے بين الاقوامی جائزوں ميں اوباما کو نوے فيصد سے زيادہ حمايت حاصل ہوئی ۔ اس طرح کی مقبوليت عام طورپر صرف شہرت يافتہ کھلاڑيوں يا فلم اور پوپ اسٹارز کے حصے ميں آتی ہے۔مختصر يہ کہ اوباما تھوڑے سے عرصے ہی ميں، ايک گمنام شخص سے نجات دہندہ ميں تبديل ہوگئے۔

اسی نسبت سے وہ توقعات بھی بہت اونچی تھيں، جو ان سے وابستہ کی گئيں۔ يہ اميد کی گئی کہ وہ دنيا کو پرامن بنانے سے لے کر ماحول تک کو بھی خطرات سے بچا ليں گے ۔ان اميدوں کے نقطہء عروج کے طور پر ان کا موازنہ بار بار ،جان ايف کيننڈی، مارٹن لوتھر کنگ اور ابراہام لنکن جيسی تاريخ ساز امريکی شخصيات سے کيا جانے لگا۔ تاہم صدر اوباما اپنے عہدہ سنبھالنے کے چھ ماہ کے دوران ان بہت زيادہ اونچی توقعات ميں سے کسی کو بھی پورا نہيں کر سکے ہيں۔

حقيقت پسندانہ اہداف کو بھی سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہی کہنا پڑتا ہے کہ ان کے حصول میں بھی صدر اوباما، صرف ايک حد تک ہی کامياب ہوئے ہيں۔ وہ عراق ميں جنگ ختم کرنا چاہتے ہيں ليکن سوال يہ ہےکہ کيا نازک امن برقرار رہ سکے گا؟ جنگ کے دوسرے محاذ افغانستان پر حالات اس سے بھی زيادہ خراب ہيں۔ نئی امريکی پاليسی اور فوج ميں اضافے کے باوجودجولائی ميں اب تک وہاں اتنی زیادہ تعداد میں فوجی مارے جاچکے ہنں کہ 2001ء ميں افغانستان پر قبضے کے بعد سے کبھی نہيں ہوئے تھے۔يہی صورتحال گوانتانامو کی ہے۔ صدر اوباما اسے بند کرنا چاہتے ہيں ليکن اس کے قيدی کہاں جائيں گے، يہ مسئلہ ابھی تک حل نہيں ہو سکا ہے۔

اقتصادی بحران کے سلسلے ميں اوباما نے بينکوں پر زيادہ ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی ہے ،ليکن ان کے ، اقتصادی سرگرمی کو تيز کرنے کے پروگراموں کے نتيجے ميں امريکی بجٹ کا خسارہ تاريخ ميں پہلی بار ايک کھرب ڈالر سے بھی بڑھ گيا ہے۔يہ قرضہ کس طرح اور کب اتارا جائے گا، يہ خود اوباما اور ان کے مشير بھی نہيں جانتے۔

ايران اور روس کے ساتھ تعلقات سے لے کر تحفظ ماحول کے مسائل تک کے سلسلے ميں بھی يہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ صدر اوباما،ايک ساتھ بہت سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہيں، ليکن ابھی تک وہ کوئی ٹھوس نتائج پيش نہيں کرسکے ہيں۔ اس کی وجہ

يہ بھی ہے کہ انہيں دنیا میں اپنے حلیف ملکوں سے پوری مدد نہيں مل رہی ہے ۔تاہم، اس سے يہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اوباما جيسی پرکشش شخصيت رکھنے والا کوئی ليڈر بھی تنہا دنيا کو تبديل نہيں کرسکتا۔


تبصرہ : ميشائل کنگے/ شہاب احمد صدیقی

ادارت : امجدعلی