1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشی عدالت: اندر توہین قرآن کا مقدمہ، باہر ’اللہ اکبر‘

علی کیفی
27 دسمبر 2016

انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ کے مسیحی عقیدے کے حامل گورنر کے خلاف توہینِ قرآن کے مقدمے کی کارروائی پھر سے شروع ہوئی ہے۔ منگل ستائیس دسمبر کو عدالت کے باہر جمع سینکڑوں مسلمان ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/2Uu71
Jakarta Muslime protestieren gegen christlichen Gouverneur  Basuki Tjahaja Purnama
ستائیس دسمبر 2016ء: جس وقت عدالت کے اندر مقدمے کے حوالے سے کارروائی چل رہی تھی، باہر سینکڑوں مسلمان جمع تھے اور نعرے لگا رہے تھےتصویر: Reuters/D. Whiteside

گورنر بیسوکی تجہاجا پورنما، جو اپنے مختصر نام آہوک سے زیادہ جانے جاتے ہیں، چینی نژاد ہیں۔ یہ مقدمہ، جسے اس مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس سمجھا جا رہا ہے، شمالی جکارتہ کی ایک عدالت میں سنا جا رہا ہے۔

ججوں کے ایک پینل نے گورنر کا دفاع کرنے والے وکلاء کی جانب سے اس کیس کو ختم کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ ان وکلاء کا موقف تھا کہ اس کیس میں نہ صرف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے بلکہ یہ گورنر کے انسانی حقوق کی پامالی کے بھی مترادف ہے۔ ججوں کا منگل کے روز کہنا یہ تھا کہ گورنر کو استثنیٰ دینے کا فیصلہ عدالت کی جانب سے تمام شواہد کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا۔

تیرہ دسمبر کو ہونے والی پہلی سماعت کے دوران گورنر پورنما نے اشک بار آنکھوں کے ساتھ اس امر سے انکار کیا تھا کہ جکارتہ کی گورنر شپ کے لیے فروری میں منعقدہ انتخابات سے پہلے انتخابی مہم کے دوران اُنہوں نے قرآن کی توہین کی تھی۔

منگل کو عدالت کے باہر سفید کپڑوں میں ملبوس سینکڑوں مسلمان مظاہرین گورنر کو توہینِ قرآن پر سزائے قید دیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عدالت کے باہر پولیس بھی تعینات تھی۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص نے کہا کہ ’انڈونیشیا میں توہینِ مذہب ناقابلِ قبول ہے، کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جانی چاہیے‘۔

Jakarta Muslime protestieren gegen christlichen Gouverneur  Basuki Tjahaja Purnama
پہلی سماعت کے دوران گورنر پورنما نے اشک بار آنکھوں کے ساتھ قرآن کی توہین کے الزام کی تردید کی تھیتصویر: Reuters/B. Indahono/Pool

عدالت کے باہر ایک چھوٹا سا ہجوم گورنر کے حامیوں کا بھی تھا، جہاں کھڑے ایک مسلمان نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا: ’’ایک مسلمان کے طور پر مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اُنہوں (گورنر) نے  معافی مانگ لی ہے تو ہمیں اُنہیں معاف کر دینا چاہیے۔‘‘

ججوں کے پینل کی قیادت کرنے والے جج دوی آرسو بُودی سنتیارتو نے کہا کہ اگر وکلائے صفائی اس پینل کے کیس کی سماعت جاری رکھنے کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں تو وہ کسی بڑی عدالت میں جا کر اپیل کر سکتے ہیں۔ گورنر پورنما نے اپنے وکلاء کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد عدالت کو بتایا کہ وہ اس تجویز پر غور کریں گے۔

اس کیس کی سماعت کے لیے آئندہ تاریخ تین جنوری مقرر کی گئی ہے۔ تب یہ کیس سکیورٹی وجوہات کی بناء پر جکارتہ کے جنوب میں وزارتِ زراعت کے ایک آڈیٹوریم میں سنا جائے گا۔

گزشتہ مہینوں کے دوران انڈونیشیا بھر میں سخت گیر موقف کے حامل مسلمانوں کی قیادت میں نکالے جانے والے جلوسوں میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور وہیں پورنما پر توہینِ قرآن کا الزام عائد کیا گیا۔ انڈونیشیا میں توہینِ مذہب کا الزام ثابت ہونے پر پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

Jakarta Muslime protestieren gegen christlichen Gouverneur  Basuki Tjahaja Purnama
انڈونیشیا بھر میں سخت گیر موقف کے حامل مسلمانوں کی قیادت میں نکالے جانے والے جلوسوں میں لاکھوں افراد نے گورنر کے لیے سزا کا مطالبہ کیاتصویر: Reuters/D. Whiteside

حقوقِ انسانی کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے توہینِ مذہب کے قانون کو یہ کہتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا ہے کہ یہ آزادیٴ اظہار کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور اس کا نشانہ مذہبی اقلیتیں بن رہی ہیں۔

گورنر پورنما کے حلیف سمجھے جانے والے موجودہ صدرِ مملکت جوکو وِدودو نے وضاحت کیے بغیر ’سیاسی کرداروں‘ کو ان احتجاجی مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام دیا ہے۔