1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انسداد دہشت گردی کی پاليسيوں کا غلط استعمال نقصان دہ‘

عاصم سلیم
17 نومبر 2017

اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے حکومتوں سے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے ليے کيے جانے والے اقدامات ميں انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داريوں کا خيال رکھا جانا چاہيے۔

https://p.dw.com/p/2nniH
London SOAS VeranstaltungTerrorismusbekämpfung & Menschenrechte Antonio Guterres
تصویر: picture-alliance/AP/M. Dunham

انٹونيو گوٹيرش نے کہا ہے کہ موجودہ دور ميں دہشت گردی، بين الاقوامی سطح پر امن، سلامتی اور ترقی کے ليے خطرہ بن گئی ہے ليکن اس کے انسداد کے ليے بنائی جانے والی پاليسيوں کو غلط انداز ميں استعمال کيا جا سکتا ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن کے ايک تعليمی ادارے ميں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ايسی پاليسياں اچھی قيادت اور قانون کی بالادستی کو متاثر کرتے ہوئے ہيں مقابلتاً کم محفوظ بنا سکتی ہيں۔‘‘

اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل کے مطابق انسداد دہشت گردی کی پاليسياں پر امن احتجاج اور قانونی طريقے سے کی جانے والی مخالفت کو خاموش کرانے کے ليے استعمال کی جا رہی ہيں۔ علاوہ ازيں ان کے ذريعے انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنان اور اقليتوں کو بھی نشانہ بنايا جا رہا ہے۔ سابق پرتگالی وزير اعظم گوٹيريش کا کہنا تھا کہ ايسی پاليسياں فائدے کے جگہ نقصان پہنچا سکتی ہيں۔

انٹونيو گوٹيريش نے اپنی تقرير ميں کہا کہ دہشت گردی کی جانب راغب ہونے والے اکثريتی افراد کا تعلق ان ملکوں سے ہے، جہاں انسانی حقوق کی پامالی عام ہے، ’’کبھی کبھار حقوق کی پامالی بھی لوگوں کے اس جانب راغب ہونے کا سبب بنتی ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے کردار پر بھی تبصرہ کيا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردانہ حملوں کے نتيجے ميں ملکوں اور برادريوں کے تعلقات بگڑ رہے ہيں اور اس عمل کو  مسلسل نشر کی جانے والی خبروں، سوشل ميڈيا پر جاری مواد اور سياسی امور کی طنزيہ انداز ميں پيشکش جيسے عوامل تقويب بخش رہے ہيں۔ ان کے مطابق ميڈيا ميں اکثر ان حملوں پر کافی توجہ دی جاتی ہے، جن ميں ترک وطن پس منظر والے يا کسی نسلی گروہ کے يا پھر کسی اقليت کے ارکان شامل ہوں۔ گوٹيريش نے يہ بھی کہا کہ دہشت سے فرار ہونے والے پناہ گزينوں کو نشانہ بنانے کا عمل قابل مذمت ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے سال ايک سو سے زائد ممالک ميں مجموعی طور پر گيارہ ہزار دہشت گردانہ حملے کيے گئے، جن ميں پچيس ہزار کے قريب لوگ ہلاک ہوئے۔ اکثريتی حملے ترقی پذير ملکوں ميں ہوئے اور تين چوتھائی ہلاکتيں صرف پانچ ملکوں بشمول عراق، افغانستان، شام، نائجيريا اور صوماليہ ميں ہوئيں۔

یورپی یونین کی سرحدوں کی بہتر نگرانی کا نیا منصوبہ